Monday, July 9, 2012

میر تقی میرؔ کی مثنویاں


            حسن و عشق کے  تعلق سے  تخلیقی فنکار کوئی تجربہ پیش کرتا ہے  تو وہ عموماً خوبصورت ہی ہوتا ہے، حسی کیفیتوں  کے  ساتھ پیش ہو تو  اور  بھی خوبصورت  اور  دلکش ہو جاتا ہے۔ میر تقی میرؔ کی نمائندہ مثنویوں  کا موضوع حسن و عشق ہی ہے۔ ’مثنوی خواب و خیال‘ ، ’مثنوی شعلۂ شوق‘  (شعلۂ عشق) ’مثنوی معاملاتِ عشق‘ ، ’مثنوی جوشِ عشق‘   اور  ’مثنوی دریائے  عشق‘  وغیرہ کا بنیادی موضوع حسن و عشق ہی ہے، شاعر خود ایک حساس عاشق کا پیکر ہو تو حسی کیفیتیں اور بھی پرکشش بن جاتی ہیں۔ ’مثنوی خواب و خیال‘ ، ’شعلۂ شوق‘   اور  ’معاملاتِ عشق‘  وغیرہ میں  شاعر کے  حساس عاشق کے  پیکر کی پہچان مشکل نہیں  ہے۔ یہی وجہ ہے  کہ ان مثنویوں  کے  موضوعات کو آپ بیتی کہتے  ہیں۔ جن مثنویوں  میں  مختصر عشقیہ  اور  رومانی فسانے  پیش ہوئے  ہیں  وہ تجربوں  کی گہرائیوں  میں  اُترتے  ہوئے  جانے  کہاں  چلے  گئے  ہیں۔ معلوم نہیں  مابعد الطبیعاتی جمالیات (Metaphysical Aesthetics) کیا ہے  لیکن یہ فسانے  کچھ اسی قسم کی جمالیات کی جانب بڑھ گئے  ہیں۔ سچائی یہ بھی ہے  کہ ہر ایسی حسیاتی پیشکش (Sensuous Presentation) خوبصورت بن گئی ہے  مثلاً:
خلق یک جا ہوئی کنارے  پر
حشر برپا ہوئی کنارے  پر
دام داروں  سے  سب نے  کام لیا
آخر ان کو اسیر دام کیا
نکلے  باہم ولے  موئے  نکلے
دونوں  دست و بغل ہوئے  نکلے
جو نظر ان کو آن کرتے  تھے
ایک قالب گمان کرتے  تھے
حیرتِ کار عشق سے  مردم
شکل تصویر آپ میں  تھے  گم!         (دریائے  عشق)                    
            مثنوی ’حکایتِ عشق‘  میں  شادی شدہ لڑکی اپنے  عاشق کی قبر پر پہنچتی ہے، قبر شق ہو جاتی ہے اور وہ قبر میں  چلی جاتی ہے۔ اس کا شوہر قبر کھدواتا ہے  تو ایک حیرت انگیز منظر سامنے  ہوتا ہے  یہ سب دیکھتے  ہیں  لڑکی مٍر چکی ہے، عاشق کے  جسم سے  لگی ہوئی ہے، دونوں  کو جدا کر نے  کی کوشش رائیگاں  جاتی ہے!
            ’مثنوی عشقیہ‘  (افغان پسر) میں  ایک شادی شدہ عورت کے  شوہر کی موت ہوتی ہے، وہ ستی ہوتی ہے  تو اس کا عاشق (افغان پسر) اس کی آواز پر آگ میں  کود پڑتا ہے، اسے  کسی صورت بچا لیا جاتا ہے، نصف جل چکا ہے، اسے  ایک درخت کے  نیچے  بٹھا دیا جاتا ہے، اس کی محبوبہ کی روح آتی ہے اور اسے  ساتھ لے  کر جانے، کہاں  چلی جاتی ہے  ’مابعد الطبعاتی جمالیات‘  کی پُر اسراریت پچھلی دونوں  مثنویوں  کی طرح یہاں  بھی ہے:
یہ بے  تاب تھا آگ پر پھر پڑا
پتنگا تھا اس شعلے  پر گر پڑا
لگے  آتے  تھے  کتنے  الفار ساتھ
وہیں  کھینچ لائے  اسے  ہاتھوں  ہاتھ
چلے  ادھ جلا لے  کے  سب اس کو گھر
ہوا گرم ہنگامہ یہ اِک اِدھر
قدم کتنے  چل کر وہ آتش بجاں
ہوا یوں  سخن زن کہ اے  دوستاں
لے  آئے  مجھے  گرمی سے  تم نکال
کیا گھر بھی لے  چلنے  کا اب خیال
نہیں  متصل راہ چلنے  کی تاب
کہ ہوں  نیم سوز آگ کا میں  کباب
کہیں  مجھ کو سائے  میں  ٹھہرائیے
جو دم ٹھہرے  تو آگے  لے  جائیے
کوئی دم مرا کھینچے  انتظار
کہ گرمی سے  ہوں  بے  خود و بے  قرار
توقف کیا سب نے  زیر درخت
کہا واقعی رنج کھینچا ہے  سخت
نہ آتش نہ گرمی نہ بے  طاقتی
بہانے  سے  سب جذب ہے  الفتی
اگر آنکھیں  کھلتیں  تو اودھر نظر
ہوئی خاک معشوقہ جل کر جدھر
کیا منتظر اس کو وہ دن تمام
نظر کر کے  کیا دیکھتا ہے  کہ شام
خراماں  چماں  آتی ہے  وہ میری
وہی ناز عشوہ وہی دلبری
اسی طرز و انداز و خوبی کے  ساتھ
اُٹھایا اسے  ہاتھ میں  لے  کے  ہاتھ
گئے  اس طرف لے  جدھر تھی چلی
نظر کرتے  تھے  واقعی یہ سہی
ہوئے  جاتے  جاتے  نظر سے  نہاں
گیا عشق کیا جانے  لے  کر کہاں
بہت سے  ہوئے  لوگ گرم سراغ
کنھوں  نے  نہ پایا نشاں  غیر داغ
نہ کر میر اب عشق کی گفتگو
قلم  اور  کاغذ کو رکھ دے  بھی تو
غرض ایک ہے  عشق بے  خوف و باک
کیے  دونوں  معشوق و عاشق ہلاک           (مثنوی عشقیہ)                           
            میرؔ نے  مختصر مثنویاں  لکھی ہیں  بنیادی موضوع عشق  اور  صرف عشق ہے، چند مثنویوں  مثلاً ’خواب و خواب‘ ، ’معاملاتِ عشق‘   اور  ’جوش عشق‘  میں  وہ خود مرکزی المیہ کردار ہیں، چند مثنویوں  مثلاً ’دریائے  عشق‘  عشقیہ  اور  ’حکایتِ عشق‘  میں  فسانے  ہیں  کہ جو اختتام پر پُر اسرار بن گئے  ہیں۔ چونکہ مثنویوں  میں  بھی میرؔ کی پیاری، دلکش  اور  دل کو موہ لینے  والی زبان ہے  اس لیے  سب  پرکشش بن گئی ہیں، ان کی غزلوں  کی روح ان مثنویوں  میں  بھی سرایت کر گئی ہے۔ غزلوں  کا منفرد مزاج یہاں  بھی متاثر کرتا ہے، درد، کرب و اضطراب کی وجہ سے  تغزل کے  ’رس‘  سے  لذّت حاصل ہوتی ہے۔ مثنویوں  کے  بعض حصوں  میں  جذباتی کیفیتیں  ایسی ہیں  کہ جن سے  وجدان کی سرمستی کی پہچان ہوتی ہے، خاص طور پر وہاں  کہ جہاں  وہ عشق کے  تعلق سے  اپنے  خیالات کا اظہار کرتے  ہیں، جلالی  اور  جمالی رویوں  کی پہچان ہوتی جاتی ہے:
 محبت نے  ظلمت سے  کاڑھا ہے  نور
نہ ہوتی  محبت نہ ہوتا ظہور
 محبت مسبّب  محبت سبب
 محبت سے  آتے  ہیں  کارے  عجب
 محبت ہے  آبِ رُخ کار دل
 محبت ہے  گرمیِ آزارِ دل
 محبت عجب خوابِ خوں  ریز ہے
 محبت بلائے  دل آویز ہے
 محبت کی آتش سے  اخگر ہے  دل
 محبت نہ ہو وے  تو پتھر ہے  دل
 محبت لگاتی ہے  پانی میں  آگ
 محبت سے  ہے  تیغ و گردن میں  لاگ
اس آتش سے  گرمی ہے  خورشید میں
یہی ذرے  کی جان نومید میں
کوئی شہر ایسا نہ دیکھا کہ واں
نہ ہو اس سے  آشوبِ محشر عیاں
کب اس عشق نے  تازہ کاری نہ کی
کہاں  خون سے  غازہ کاری نہ کی
زمانے  میں  ایسا نہیں  تازہ کار
غرض ہے  یہ، اعجوبۂ روزگار
(مثنوی شعلۂ شوق)                        
عشق ہے  تازہ کار و تازہ خیال
ہر جگہ اس کی اِک نئی ہے  چال
دل میں  جا کر کہیں  تو درد ہوا
کہیں  سینے  میں  آہِ سرد ہوا
کہیں  آنکھوں  سے  ہوکے  خون بہا
کہیں  سر میں  جنون ہوکے  رہا
گہ نمک اس کو داغ کا پایا
گہ پتنگا چراغ کا پایا
واں  طپیدن ہوا جگر کے  بیچ
یاں  تبسم ہے  چشم تر کے  بیچ
کہیں  باعث ہے  دل کی تنگی کا
کہیں  موجب شکستہ رنگی کا
کسو چہرے  کا رنگ زرد ہوا
کسو محمل کی رہ کی گرد ہوا
طور پر جاکے  شعلہ پیشہ رہا
بستیوں  میں  شرارِ تیشہ رہا
ایک عالم میں  درد مندی کی
ایک محفل میں  جاسپندی کی
ایک دل سے  اُٹھے  ہے  ہو کر دود
ایک لب پر سخن ہے  خوں  آلود
کہیں  بیٹھے  ہے  جی میں  ہو کر چاہ
کہیں  رہتا ہے  قتل تک ہمراہ
کہیں  شیون ہے  اہل ماتم کا
کہیں  نوحہ ہے  جانِ پُر غم کا
نمکِ زخم سینہ ریشاں  ہے
نگہِ یاس مہر کیشاں  ہے
کشش اس کی ہے  ایک اعجوبہ
ڈوبا عاشق تو یار بھی ڈوبا
جس کو ہو اس کی التفات نصیب
ہے  وہ مہمان چند روزہ غریب
ایسی تقریب ڈھونڈ لاتا ہے
کہ وہ ناچار جی سے  جاتا ہے
(دریائے  عشق)                           
کچھ حقیقت نہ پوچھ کیا ہے  عشق
حق  اگر  سمجھو تو خدا ہے  عشق
عشق عالی جناب رکھتا ہے
جبرئیل و کتاب رکھتا ہے
(معاملاتِ عشق)              
            جن مثنویوں  میں  اختتامیہ پُر اسرار ہیں  وہ عشق کے  رس سے  سرشار ہیں  اس حد تک کہ وہ تحیر کے  جمال کے  مناظر بن گئے  ہیں۔ میر نے  جو Visual Sensation پیش کر نے  کی کوشش کی ہے  وہ ان کی عمدہ تخلیقی فنکاری کا ثبوت ہے۔ ’دریائے  عشق‘ ، ’حکایتِ عشق‘   اور  ’مثنوی عشقیہ‘ کے  آخری منظر المناک ہیں  لیکن ایک ممتاز شاعر کے  المیہ مناظر ایسے  المیہ تجربے  بن جاتے  ہیں  جو جمالیاتی لذّت  اور  جمالیاتی انبساط عطا کر نے  لگتے  ہیں۔ بڑی بات یہ ہے  کہ Visual Sensation کے  ساتھ ہی جمالیاتی لذّت حاصل ہونے  لگتی ہے۔ ان مثنویوں  کی سب سے  بڑی خصوصیت یہی ہے۔ میرؔ کی مثنویوں  میں  اہم فسانے  نہیں  ملتے اور کردار نگاری کی جانب بھی کوئی توجہ نہیں  ملتی۔ عشق کے  دلکش دھوئیں  میں  دو تین کرداروں  کے  پُر اسرار سائے  نظر آتے  ہیں  چہرے  دھندلے  ہیں  اس لیے  یکسانیت نظر آتی ہے۔ ملتے  جلتے  چہرے  میں  سایوں  کے  تحرک کا انجام ایک جیسا ہی ہوتا ہے، تحیر کے  جمال کا تاثر ملتا ہے اور سائے  گم ہو جاتے  ہیں، ان کا کوئی سراغ نہیں  ملتا۔
جن مثنویوں  (’خواب و خیال‘ ، ’معاملاتِ عشق‘ ، ’جوشِ عشق‘ ) میں  میرؔ خود المیہ کردار ہیں  وہ بھی عشقیہ ہیں اور المیات کے  حسن کو نمایاں  کرتی ہیں۔ ’مثنوی خواب‘  و خیال میں  عشق نے  جنوں  کی صورت اختیار کر لی ہے:
جگر جور گردوں  سے  خوں  ہو گیا
مجھے  رکتے  رکتے  جنوں  ہو گیا
            مرکزی المیہ کردار ترکِ وطن کرتا ہے، عشق کے  جذبے  سے  سرشار ٹوٹ سا جاتا ہے، درد و غم کو سینے  میں  دبائے  اکبر آباد سے  دلی آتا ہے، اپنی ذہنی کیفیت اپنے  احساسات  اور  اضطراب کو اس طرح پیش کرتا ہے:
مجھے  یہ زمانہ جدھر لے  گیا
غریبانہ چندے  بسر لے  گیا
بندھا اس طرح آہ بارِ سفر
کرے  زادِ رہ کچھ نہ بارِ سفر
گرفتارِ رنج و مصیبت رہا
غریبِ دیارِ  محبت رہا
چلا اکبر آباد سے  جس گھڑی
در و بام پر چشم حسرت پڑی
کہ ترکِ وطن پہلے  کیوں  کر کروں
مگر ہر قدم دل کو پتھر کروں
دل مضطرب اشکِ حسرت ہوا
جگر رخصتانے  میں  رخصت ہوا
پس از قطع رہ لائے  دلّی میں  بخت
بہت کھینچے  یاں  میں  نے  آزار سخت
جگر جورِ گردوں  سے  خوں  ہو گیا
مجھے  رکتے  رکتے  جنوں  ہو گیا
جنوں  کی کیفیت اس طرح بیان کرتا ہے:
ہوا خبط سے  مجھ کو ربطِ تمام
لگی رہنے  وحشت مجھے  صبح و شام
کبھو کف بہ لب مست رہنے  لگا
کبھو سنگ در دست رہنے  لگا
کبھی غرقِ بحرِ تحیّر رہوں
کبھو سر بہ جیب تفکّر رہوں
یہ وہم غلط کاریاں  تک کچھا
کہ کارِ جنوں  آسماں  تک کچھا
            اس مثنوی میں  المیہ کردار نے  اپنی یادوں  کو سمیٹنے  کی کوشش کی ہے۔ مہتاب میں  اپنے  محبوب کے  چہرے  کو دیکھا:
نظر رات کو چاند پے  جا پڑی
تو گویا کہ بجلی سی دل پر پڑی
مہ چار دہ آتش کرے
ڈروں  یاں  تلک میں  کہ جی غش کرے
تو ہم کا بیٹھا جو نقشِ درست
لگی ہونے  وسواس سے  جان سست
نظر آئی اِک شکل مہتاب میں
کمی آئی جس سے  خور و خواب میں
اگر چند پرتو سے  مہ کے  ڈروں 
ولیکن نظر اس طرف ہی کروں
            اس کی یادوں  میں  محبوب کا جلوہ بہت اہم ہے، آنکھوں، رخسار، دہن، گیسو، سب کی یاد آتی ہے۔ سب خوبصورت ا4  یا پیکر بن جاتے  ہیں:
عجب رنگ پر شعلہ رخسار کا
مگر وہ تھا آئینہ گلزار کا
جو آنکھ اس کی بینی سے  جا کر لڑے
دمِ تیغ پر راہ چلنی پڑی
مکاں  کنج لب خواہش جان کا
تبسّم سبب کا ہش جان کا
دہن دیکھ کر کچھ نہ کہیے  کہ آہ
سخن کی نکلتی تھی مشکل سے  راہ
سزا ہے  جگر اس کسو کے  لیے
جو سیب زقن اس کا بو کر جیے
گل تازہ شرمندہ اس روسے  ہو
خجل مشک ناب اس کے  گیسو سے  ہو
سراپا میں  جس جا نظر کیجیے
وہیں  عمر اپنی بسر کیجیے
کہیں  مہ کا آئینہ در دست ہے
کہیں  بادۂ حسن سے  مست ہے
کہیں  نقشِ دیوار دیکھا اسے
کہیں  گرم رفتار دیکھا اسے
کہیں  دل بری اس کو درپیش ہے
کہیں  مائل خوبی خویش ہے
کہیں  جملہ تن مہر صرف سکوں
کہیں  مجھ سے  سرگرم حرف سکوں
کہیں  جلوہ پرداز وہ عشوہ ساز
کہیں  ایستادہ بصد رنگ ناز
رہے  سامنے  اس طرح پر کبھو
رکھے  وضع سے  پاؤں  باہر کبھو
بغل میں  کبھو آرمیدہ رہے
کبھو اپنے  بر خویش چیدہ ہے
کبھو صورت دل کش اپنی دکھائے
کبھو اپنے  بالوں  میں  منہ کو   چھپائے
کبھو گرم کینہ کبھو مہربان
کبھو دوست نکلے  کبھو خصم جان
کبھو یک بہ یک پار ہو جائے  وہ
کبھو دست بردار ہو جائے  وہ
ہر اِک رات چندے  یہ صورت رہی
اسی شکل وہی صحبت رہی
(مثنوی خواب و خیال)                    
            میں  نے  اپنی کتاب ’میر تقی میرؔ کی جمالیات پر گفتگو‘  میں  لکھا ہے  کہ ’میر شرینگار رس‘  کے  ایک ممتاز شاعر ہیں۔ عشق ہی شرینگار رس کا مرکز ہے، اس کے  تحرک سے  یہ رس اپنی شیرینی  اور  مٹھاس عطا کرتا ہے، غمناکی کی لیے  یہ رس قاری کے  جذبے  کو صرف متاثر ہی نہیں  کرتا بلکہ قاری کے  باطن میں  ’کتھارسیس‘  کی کیفیت پیدا کر دیتا ہے۔ شعور، احساس، تخیل سب متاثر ہوتے  ہیں۔ غزل کی طرح میر کی مثنویوں  کے  ایسے  حصّے  بھی تڑپتے  ہوئے، زخمی، قتل ہوئے، عشق کے  مارے  ہوئے  عاشق کی کہانی ہے۔ عشق شرینگار رس کا بنیادی جذبہ ہے اور میرؔ کی شاعری عشق کے  جذبے  کی ایک ایسی شاعری ہے  کہ ٹھٹھک کر دیکھتے  رہنے  کی خواہش ہوتی رہتی ہے۔ یہاں  شرینگار رس کی تازگی لیے  جو اشعار سامنے  آئے  ہیں  وہ قابل توجہ ہیں، اپنی کیفیت بیان کرتے  ہوئے اور یادوں  کو سمیٹتے  ہوئے  میرؔ کا احساسِ جمال بھی متاثر کرتا ہے اور ان کی رومانیت بھی اثر انداز ہوتی ہے۔ غور فرمائیے  ’مثنوی خواب و خیال‘  کے  ان اشعار میں  حسن کا احساس کتنا گہرا ہے اور یادوں  کی رومانیت میں  شرینگار کی روح کس طرح اترتی ہے۔ ذہن کے  ’کینوس‘  پر مختلف رومان انگیز لکیروں  سے  کتنی خوبصورت تصویر اُبھری ہے۔ جن مثنویوں  میں  میرؔ کی شخصیت المیہ کردار کی صورت نظر آتی ہے  وہ صرف اس لیے  اہم نہیں  ہیں  کہ وہ ’آپ بیتی‘  ہیں، وہ اس لیے  زیادہ اہم ہیں  کہ وہ ایک تخلیقی فنکار کے  جمالیاتی شعور کی تخلیقات ہیں۔ شخصیت، ذات کی حیثیت ثانوی ہے، جمالیاتی تجربے  ہی زیادہ اہم ہیں۔ شخصیت، ذات کے  سوز و گداز کی اہمیت اپنی جگہ پر ہے۔ سب سے  زیادہ اہمیت جمالیاتی تجربوں  کے  عطا کئے  ہوئے  روشن  اور  چمکتے  ہوئے  ہیروں  کی ہے، ان استعاروں اور کنایوں  کی ہے  جو جمالیاتی تجربوں  کی دین ہیں۔ اس بھرے  پھل دینے  والے  درخت کو ضرور پہچانیے  لیکن رس بھرے  پھل کی لذّت ہی زیادہ اہمیت رکھتی ہے، اس بات پر بھی غور کیجیے۔ کسی نے  کہا تھا:
            "To appreciate the lustre of the pearl you need not know the Oyster"
            ’اویسٹر‘  ایک ’شیل فیش‘  (Shell Fish) ہے  جسے  ’کستورا‘  کہتے  ہیں، اس کے  چھلکے  میں  اکثر بہت قیمتی موتی   چھپے  ہوتے  ہیں، ان کی تابندگی، درخشانی  اور  چمک دمک ہی زیادہ اہمیت رکھتی ہے  کیا ضروری ہے  کہ ہم اس کستور کو تلاش کرتے  پھریں  یا اسے  جانیں  کہ جس کے  چھلکے  سے  کوئی قیمتی موتی نکلا ہے!
            ’اویسٹر‘  کوہی ڈھونڈھتے  پھریں  گے  تو اندیشہ ہے  کہ اس قیمتی موتی کو کھودیں  گے۔ میرؔ کی ایسی مثنویوں  کے  ساتھ ایسا ہی ہوا ہے۔ ہم کستورا ہی کو ڈھونڈتے  رہے  ہیں  اب تک،   موتی‘  کے  حسن و جمال کی جانب توجہ ہی نہیں  دی ہے۔ میر صاحب کو یقیناً کسی سے  عشق ہوا ہو گا، اُن پر جنون کی کیفیت بھی طاری ہوئی ہو گی ’ذکر میر‘  کے  مطابق وہ دیوانے  ہو گئے  تھے، مہتاب میں  محبوب کی صورت نظر آنے  لگی تھی۔
            میرؔ نے  جس سے  عشق کیا تھا وہ پردہ نشیں  خاتون تھیں۔ یہ باتیں  ہم ضرور کریں  لیکن ہر وقت یہی باتیں  تو نہ کریں۔ اچھی طرح یہ بھی تو دیکھیں  کہ جن مثنویوں  میں  ذات المیہ کردار کی صورت ابھری ہے  اس کے  فنّی  اور  جمالیاتی تجربے  کیسے  ہیں۔ جمالیاتی فکر و نظر کی کیفیت کیا ہے، احساس  اور  جذبے  کے  جو رنگ ابھرے  ہیں  ان کا جمال کس قسم کی سرگوشیاں  کر رہا ہے۔ مجموعی تاثر یہ ہوتا ہے  کہ ہر پھول ایک آبلہ ہے  جس سے  لہو ٹپک رہا ہے، بیدل کا یہ شعر یاد آتا ہے:
ہر گل کہ دیدم آبلہ خوں  چکیدہ بور
یارب چہ خار در دلِ گلشن شکسہ اند!
(بیدلؔ)             
(ہر گل ایک آبلہ ہے  جس سے  خون ٹپک رہا ہے، یا اللہ گلشن کے  دل میں  کیسا کانٹا تھا کہ ٹوٹ کر رہ گیا!)
            ٹوٹ کر اندر رہ جانے  والے  کانٹے  کے  احساس کے  ساتھ جو منظر ابھرا ہے  وہ حد درجہ المناک ہے، ہر گل ایسا آبلہ دکھائی دے  رہا ہے  کہ جس سے  لہو ٹپک رہا ہے! جو منظر ابھرا ہے  اس کی چبھن  اور  ٹیس مضطرب کر دیتی ہے، شرینگار رس لیے  میرؔ کے  تجربے  جب المیہ کی صورت اختیار کرتے  ہیں  تو ذات  اور  شخصیت سے  الگ خوبصورت جمالیاتی تجربے  زیادہ متاثر کرتے  ہیں۔ فنکار کی روح کی گہرائیوں  یا تحت الشعور میں  جو ڈراما داخلی آہنگ لیے  تھا وہ یقیناً اہم ہے  لیکن سب سے  زیادہ اہم اس ڈرامے  کی ظاہری صورت ہے  کہ جس میں  فنکار کے  ’وژن‘  نے  استعاروں  کی تخلیق کی ہے اور تجربوں  کو جمالیات ڈرامائی آہنگ عطا کیا ہے۔
            اُردو کی کلاسیکی مثنویوں  میں  میر تقی میرؔ کی مثنویاں  بھی نمایاں  مقام رکھتی ہیں!
۔۔۔۔۔۔۔۔
  ۱؎        رمّال: جوتشی        ۲؎          طالع شناس: نجومی   ۳؎         قرعہ: پاک
**

No comments:

Post a Comment