Monday, July 9, 2012

گلزار نسیم : ایک بازیافت

تحقیق نتیجہ خیز حقائق کی بازیافت ہے۔ یہ ضروری ہے کہ محقق ذہنی دیانت کے ساتھ تخلیق کو اس کی اصل شکل میں دیکھنے کی تمنا اور تڑپ رکھتا ہو اور قاری کے سامنے اسی شکل میں پیش کرنا بھی چاہتا ہو۔ اس کے لئے یہ ناگزیر ہے کہ وہ منطق سے باخبر ہو، اور جن نتائج تک وہ پہونچے وہ اصول درایت پر پورے اتریں اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب وہ اپنی فکر اور اپنے علم کو ترتیب دینے کی صلاحیت کے ساتھ ضبط و نظم کا پابند ہو۔ اور اپنے موضوع کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنی فکر کو نقطہ تحقیق پر مرکوز کرنے کا ملکہ رکھتا ہو۔
یہ خصوصیت بھی اگر ہو تو بہتر ہے کہ محقق اپنی شخصیت کو قاری پر مسلط نہ کرنا چاہتا ہو اور موضوع کے بجائے خود اپنی ذات کو محور فکر بنانے کی کوشش میں نہ لگا رہے۔ یہ ٹھوس حقیقت ہے کہ ا نانیت، خودستائی اور ’’میں میں ‘‘ کی ممیاہٹ میں کڑھی ہوئی علمی شخصیت میں بیر ہوتا ہے۔ اسی لئے سچا محقق عموماً اپنے پیش کر دہ نتائج سے اپنی شخصیت کو الگ رکھتا ہے۔ اکثر محققین نے جب کسی شخصیت پر تحقیقی کام کیا تو اس کی آڑ میں اپنی شخصیت ابھارنے کی کوشش کی اور افسوس ناک طور پر کوئی نتیجہ برآمد نہ ہوا، اس کے کارناموں کی صحیح تصویر بن سکی اور نہ ہی شخصیت کا حقیقی تعارف ہوسکا۔
تدوین متن کے سلسلے میں دکنیات میں ایسی مثالیں اکثر ملتی ہیں جہاں ایک ہی متن کئی بار مختلف افراد نے پیش کیا اور صاحب متن کی شخصیت کو پس پشت ڈال کر مرتب متن نے اپنے قد کو اونچا کرنا چاہا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ایسے متون مجموعہ اغلاط ہی رہے۔
متن میں ذراسی غلطی بھی حد درجہ گمراہ کن ہوسکتی ہے۔ اگر متن ہی سے باخبری نہیں ہے اور صحت کے ساتھ متن کی قرأت نہیں کی جاسکتی تو نہ تخلیق کا حُسن سامنے آسکتا ہے نہ اس کے نقائص گرفت میں آسکتے ہیں نہ ہی اس کی تاریخیت کا عرفان ہوسکتا ہے۔ حقائق جمع کرنا اس میں سے منتخب کرنا تدوین متن کے لئے ناگزیر ہے اور بغیر اس کے اصلی متن تک رسائی ممکن ہی نہیں ۔
تدوین متن کا مسئلہ اس وقت اور بھی اہم ہو جاتا ہے جب داستانوں کی تحقیق کا مرحلہ ہو۔ داستانوں کے طلسم کشا اور صاحب قران گیان چند نے اپنی لوح طلسم یعنی ’’اردو کی نثری داستانیں ‘میں تقریباً تمام داستانوں کی نشاندہی کی ہے۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ وہ کسی داستان کی تدوین کا حوصلہ نہ کر سکے۔ انہی کے الفاظ ہیں :
’’تحقیق متن کی دنیا سیمیا کی سی نمود ہے‘
اور اس ’’سیمیا’‘ کو وہ متن کی کیمیا میں نہ بدل سکے۔
دراصل داستانوں کا متن مرتب کرنے کے لئے اس کی تخیلی دنیا سے لطف اندوز ہونے کی ضرورت ہوتی ہے، مدرسہ کا قاری اس سے عاری ہوتا ہے۔ داستانیں صرف واقعات کا پلندہ یا بچوں کا قصہ نہیں ہوتیں بلکہ ان داستانوں میں بڑی حد تک ملک کا وقار، طبقات کی شدت احساس اور تہذیبی گروہوں کا جذباتی رجحان بھی چھپا ہوتا ہے۔ داستان نظم میں ہو یا نثر میں ، اس کا اسلوب، اس کا ڈرامہ اور علم معنی و بیان و بدیع کی نزاکتوں پر گہری نظر ہونی چاہئے۔ داستان ساز کی بنائی ہوئی دنیا میں سورج کی گرمی اور چاند کی خنکی سودوزیاں والی دنیا سے بالکل مختلف ہوتی ہے۔ وہ لفظوں کے گلدستے سے خوشبو پیدا کرتا ہے اور ایسے پیکر تراشتا ہے جو کرنوں کے بنے ہوئے ہوتے ہیں اور محقق اگر ان رموز سے بے خبر ہے تو وہ داستان کا متن ترتیب نہیں دے سکتا۔
رشید حسن خاں تحقیق کے مرد مومن ہیں ۔ ان کے عشق تحقیق کا قافلہ سخت جاں آج بھی سرگرم سفر ہے۔ وہ ان تمام صفات سے متصف ہیں جو ایک محقق میں ہونی چاہئیں ، خصوصاً داستانوں کے متون مرتب کرنے کے سلسلے میں
نہ ان کا کوئی مقابل نہ ان کا کوئی بدل۔
انہوں نے بڑی خوش سلیقگی اور نفاست کے ساتھ امتیاز علی خاں عرشی سے ملی ہوئی تحقیقی وراثت کو اپنے قلم کی پلکوں پر سجا کر اب تک محفوظ رکھا ہے اور عالمانہ انداز میں اس روایت کو آگے بڑھایا ہے۔
داستانوں کے وہ ماہر ہیں اور اس سے قبل ’’باغ و بہار’‘ اور ’’فسانہ عجائب’‘ جیسی نثری داستانوں کا متن کر چکے ہیں ’’گلزار نسیم’‘ منظوم ہے۔ حالانکہ اس کا اصل قصہ نثر میں ہے اور دیا شنکر نسیم نے جسے شعری پیکر عطا کر کے اسے ’’دو آتشہ’’‘ بنا دیا ہے۔ اس کی ادبی اہمیت پر اردو کے خدائے نثر نے یوں روشنی ڈالی ہے :
’’پنڈت صاحب نے ہر مضمون کو تشبیہ کے پردے اور استعارہ کے پیچ میں ادا کیا اور وہ ادا معشوقانہ خوش ادائی نظر آئی، اس کے پیچ، دہی بانکپن کی مروڑ ہیں جو پری زادیں بانکا دوپٹا اوڑھ کر دکھلاتی ہیں اور اکثر مطالب کو بھی اشاروں اور کنالوں کے رنگ میں دکھایا ہے باوجود اس کے زبان فصیح اور کلام شستہ اور پاک ہے۔
اختصار بھی اس مثنوی کا ایک خاص وصف ہے جس کا ذکر کرنا واجب ہے کیونکہ ہر معاملہ کو اس قدر مختصر کر کے ادا کیا ہے جس سے زیادہ ہو نہیں سکتا اور ایک شعر بیچ میں نکال دو تو داستان برہم ہو جاتی ہے‘۔ ۱)
آزاد نے مثنوی کی جس حَسین انداز میں توصیف کی ہے اس کے علاوہ بھی دور حاضر کے تناظر میں اس کے کچھ ایسے گوشے بھی ہیں جو گہری معنویت رکھتے ہیں :
(۱) اس مثنوی کا لکھنے والا ہندو ہے اور ’’ہر‘‘ سے اپنے کلام کا آغاز کرتا ہے لیکن اسلامی اصطلاحات و تلمیحات و قرآنی ترجمے نگینے کی طرح اپنے اشعار میں جڑتا چلا جاتا ہے۔
(۲) اردو کا یہ و احد قصہ ہے جس کے مصنفین یا مولفین کا سلسلہ بنگال سے کشمیر تک پھیلا ہوا ہے۔ عزت اللہ بنگالی، نہال چند لاہوری اور نیرنگ بہار باغ کشمیر دیا شنکر نسیم نے اس قصہ کو زندہ جاوید بنا دیا ہے۔
(۳) اس کا قصہ بھی کامروپ سے امر کنٹک کی پہاڑیوں تک پھیا ہوا ہے۔
(۴) اس میں علم بدیع کی وہ ساری صناعی موجود ہے جو اردو شاعری میں انیس و دبیر کے علاوہ کسی کے یہاں نہیں ملے گی۔
(۵) اس کی یہ اہم ترین خصوصیت ہے کہ اردو میں کسی شعری تخلیق پر اتنا زبردست ادبی معرکہ نہیں ہوا جتنا اس مثنوی پر ہوا یہ معرکہ اتنا اہم ہے کہ ایک عام طالب علم اگر صرف اس معرکہ کو پڑھ لے تو جملوں کی ساخت، صرفی و نحوی تراکیب، روزمرہ غرضیکہ زبان و بیان کے ہزاروں گوشے تاریکی سے روشنی میں آ جائیں ۔
اتنی اہم مثنوی کی تدوین مشکل نہ سمجھی گئی اور اس کے بہت سے متون مرتب کیے گئے۔ خود رشید حسن خاں صاحب اس کا ایک ایڈیشن مرتب کر چکے ہیں ۔ ۲) چکبست، قاضی عبدالودود اور صغر گونڈوی نے بھی اسے مرتب کیا ہے۔ دور حاضر کے بہت سارے افراد اپنی کتابوں کی فہرست کی زلف کو دراز کرنے کے لئے بہت سارے متون کو الٹا سیدھا مقدمہ لکھ کر شائع کراتے رہتے ہیں او ریونیورسٹیوں میں ماشاء اللہ لکچرر، ریڈر، پروفیسر بنے رہتے ہیں ، ایسے افراد نے بھی گلزار نسیم کو مرتب کیا ہو گا۔ اس طرح کے نسخوں سے قطع نظر، معتبر نسخوں میں اصغر گونڈوی کا مرتبہ نسخہ یادگار نسیم وقیع اور اہم تھا۔ انہوں نے اپنے عہد کے تقاضوں کے مطابق نسیم کی شخصیت اور ان کے کلام کے فنی محاسن پر بھی اپنے مقدمہ میں روشنی ڈالی تھی۔ لیکن یہ تسلی بخش نہ تھا، جس طرح نذیر احمد گلستاں کے باب پنجم میں بہت سارے اشعار پر قلم پھیر دیا کرتے تھے، مولانا اصغر گونڈوی بھی، جہاں کہیں شعر میں جنسیت دکھائی دی، اسے قلم زد کر گئے ہیں ۔ اس کے علاوہ تیسری دہائی میں تحقیق اس منزل تک نہیں پہونچی تھی کہ جس سے آج کے طالب علم کو تشفی ہو اور وہ گلزار نسیم کا مطالعہ کرتے ہوئے ہر زاویہ نظر سے باخبر ہوسکے!
اس قصے کے علاقے، اس کے محل وقوع، اس کی اساطیری اہمیت پر لکھا گیا ہے لیکن وہ منتشر صورت میں رہا۔ گیان چند نے امرکنٹک کی پہاڑیوں کی سیر کرائی۔ رام گڑھ کے جنگل میں لے گئے۔ دلدل کا منظر دکھایا اور دلدل کے بیچ میں قلعہ اور رات کو طلسماتی روشنی وغیرہ سے متعارف کرایا۔
ہندی ساہتیہ سمیلن والوں نے مانک ہندی کوشش میں لکھا کہ :
’’اگستیہ نام کا درخت و پھول بگلے کی طرح سفید ہوتا ہے۔ گل بکاؤلی کے لئے لکھا کہ ہلدی کی ذات کا پودا جو عام طور سے دلدل میں ہوتا ہے۔ لمبوترا اور خوشبودار اور آنکھوں کے امراض کے لئے مفید ہوتا ہے‘۔ اس کی اساطیری اہمیت پر بھی کافی سوشگافیاں ملتی ہیں ۔ مثلاً سون بھدر بکاؤلی پر عاشق ہوا اور پھر جوہلا پر عاشق ہو گیا۔ بکاؤلی نے لات مار کر دونوں کو پانی بنا کر بہا دیا۔ دریائے نربدا اور سون ’’سزا یافتہ کردار’’‘ ہیں ۔
محترم حیات اللہ انصار ی نے بتایا کہ جہاں سے دریائے سون و دریائے نربدا نکلتے ہیں وہاں بکاؤلی نام کا ایک پودا ہوتا ہے اس میں پھول بھی آتا ہے آج کل اس کا سوکھا پھول دو۔ دو روپیئے میں بکتا ہے اور مقامی دواساز ایک پھول لے کر گائے کا گھی اور کافور اور جانے کیا کیا ملا کر دوا بناتے ہیں ۔
گلزار نسیم کے موجودہ نسخے میں ان تمام اساطیری اور طلسماتی قصوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے محاکمہ کیا گیا ہے۔ لکھتے ہیں :
’’کسی اور علاقے میں اور اس میں ’’امرکنٹک’’‘ کا بھی علاقہ شامل ہے۔ تحریری صورت میں اس سے پہلے کوئی کہانی نہیں ملتی۔ اس سلسلے کی یہ بات بھی ہے کہ عزت اللہ نے لکھا ہے کہ دو شہر از شہر ہائے شرقستان تاجدار بود کہ اور ازین الملوک گفتندے‘۔
تاجدار کے نام سے یہاں بحث نہیں کیونکہ وہ مؤخر صورت ہو گی۔ اصل بحث شرقستان سے ہے۔ ہندوستان کا مشرقی علاقہ وہی ہے جس میں آسام و بنگال شامل ہے۔ ۔ ۔ اگر یہ مان لیا جائے کہ اس کہانی کا ہیرو بنگال کے علاقے سے آیا تا اور امرکنٹک کے علاقہ سے ہیروئین کو اور پھول کو ساتھ لے گیا تو اسے قرین قیاس کہا جاسکتا ہے۔ اس صورت میں یہ بات آسانی سے سمجھ میں آسکتی ہے کہ اس قصہ کی قدیم ترین تحریری شکل کیوں علاقہ بنگال سے تعلق رکھتی ہے۔ عزت اللہ کی صراحت کے مطابق یہ قصہ بہت مشہور تھا ظاہر ہے کہ ہیرو جب ہیروئن کو (اور شاید پھول) کو بھی اپنے دیس واپس لے گیا ہو گا تو اس کی محیرالعقول مہم جوئی، خطرپسندی اور بہادری اور پھر کامیابی کی داستانیں تو اسی کے دیس میں بنی ہوں گی اور انہوں نے وہیں شہرت پائی ہو گی۔ ۴)
اس اقتباس سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ اس کہانی کا علاقہ اور محل وقوع کیا ہے اور یہ کس طرح کا روپ سے لے کر وسطی ہندوستان تک کو اپنے دائرہ میں لیئے ہوئے ہے۔
اس کا قصہ مکمل طور سے ہندوستانی اور سیکولر ہے، زین الملوک تاج الملوک، روح افزا غیرہندوستانی سے لگتے ہیں ۔ محمودہ میں ہلکی سی اسلامیت کی جھلک ہے، لیکن یہ سارے نام بالکل اسی طرح سے سیکولر ہیں جیسے آنجہانی مالک رام نے اپنے بچوں کے نام رکھے تھے یا جیسے بیسویں صدی کے آغاز تک راج بہادر، تاج بہادر اور اقبال بہادر قسم کے نام رکھے جاتے تھے۔
رشید حسن خاں نے متذکرہ پہلو کے ساتھ بڑی فراخدلی سے قصہ کے اجزاء و عناصر کے سلسلے میں گیان چند کے نتائج تحقیق کو مختصراً پیش بھی کیا ہے اور ان کا اعتراف بھی کیا ہے۔
قصہ گل بکاؤلی کی منظوم حیثیت پر بھی انہوں نے روشنی ڈالی ہے۔ اس سلسلے کا ایک دلچسپ واقعہ بھی درج ہے۔ کراچی میں ’’اردو ادب کی تاریخ مرتب کی گئی، مرتب ہیں عبدالقیوم لکچرر کراچی یونیورسٹی۔ ان کی اس تاریخ میں حبیب اللہ غضنفر صاحب لکچرر اردو کالج کراچی کا ایک مضمون ہے ’ ’دیسی زبانوں کی ترقی میں مسلمانوں کا حصہ’’‘ اس سلسلے میں انہوں نے ص ۱۴۶ پر اس عہد کے ایک بڑے شاعر نوازش خاں کا تذکرہ کیا ہے جس نے گل بکاؤلی کا قصہ پہلی بار نظم کیا۔ یہ نوازش خاں ۱۶۳۸ء میں حیا ت تھے، ۱۷۶۵ء میں انتقال ہوا۔ چٹگام کے رہنے والے تھے تاریخ ادبیات مسلمانان پاکستان و ہند میں بھی ان کا تذکرہ ہے۔ ۵)
رشید حسن خاں نے تفصیلی بحث کر کے یہ ثابت کیا کہ یہ قصہ عزت اللہ کے بعد کا ہے اور اس طرح گل بکاؤلی کا توقیت نامہ بھی تیار کر دیا کہ ۱۷۲۰ء اور ۱۷۳۰ء کے درمیان عزت اللہ نے لکھا پھر ریحان کی مثنوی ۱۷۹۷ء سے ۱۷۹۸ء کے درمیان، نہال چند کی ’’مذہب عشق’’‘ ۱۸۰۳ء میں اور پھر گلزار نسیم ۱۸۳۸ء میں لکھی گئی۔ انہوں نے رفعت کی مثنوی اور تلسی رام عزیز کی مثنوی قصہ گل بکاؤلی کے سلسلے میں بھی حقائق پر سے پردہ ہٹایا ہے۔ نہال چند لاہوری نے جو ترجمہ کیا تھا اس میں اصل متن سے کہیں کہیں انحراف بھی ہے۔ اس کا بھی ذکر ہے اور یہ کہ میر شیر علی افسوس نے جگہ جگہ ’’مذہب عشق’’‘ کی سست عبارت کو ’’چست و درست’’‘ کیا ہے۔
ریحان کی مثنوی یا اس سے استفا دے یا سرقے پر بھی اچھی بحث ملتی ہے۔ سنٹرل یونیورسٹی آف حیدرآباد میں عزیزی ڈاکٹر محمد کلیم الحق قریشی نے بڑی دیدہ ریزی اور کدو کاوش کے ساتھ ریحان کی مثنوی کو مرتب کیا اور مقدمہ لکھا، ان کے پیش نظر ریحان کا نسخہ حیدرآباد اور نسخہ کراچی بھی تھا۔ وہ غیر معمولی صلاحیتوں کے حامل ہیں اور کسی بھی استاد کو ان پر بجا طور سے فخر ہوسکتا ہے۔ لیکن وہ ریحان کی مثنوی کی زبان اور اس کے لہجہ پر غور نہ کر سکے اور سرسری طور سے اس جہاں سے گزرے۔ دلچسپ پہلو یہ ہے کہ ریحان اور نسیم کے متحد المضامین اشعار ساڑھے سینتیس اشعار قرار پاتے ہیں ۔ جہاں تک ذاتی خیال ہے رفعت نے ریحان سے استفادہ کیا ہے، نسیم نے نہیں ۔
رشید حسن خاں نے جہاں عزیزی ڈاکٹر محمد کلیم الحق قریشی کے مقالہ پر جرح کی ہے وہیں سید خورشید علی حیدرآبادی کے اس مضمون کی بھی حلاجی کی ہے جس میں انہوں نے ریحان کی مثنوی کو متعارف کرایا تھا۔ اس مثنوی کے بارے میں رشید حسن خاں سے اتفاق کرتے ہوئے یہ لکھنا پڑتا ہے کہ :
(۱) ریحان لکھنوی نہ تھا بلکہ اردو جاننے والا بنگالی رہا ہو گا۔
(۲) موزوں طبع تھا لیکن متشاعر تھا۔ اس کے صرف تین مصرعے درج ہیں :
پوشاک لباس سب چھنا لیں
استاد جی واہ آفریں باد
جیسے ہو کوئی مٹھائی رنگیں
رشید حسن خاں نے اس کے دو شعر اور نقل کئے ہیں ۔
وہابیوں نے ہے سر اٹھایا ۔ ۔ ۔ یک خلق کو ہے غرض ستایا
جہاں تک حافظہ سات دیتا ہے، وہابی تحریک انیسویں صدی کی ہے اٹھارہویں صدی کی نہیں ، کم از کم ۱۷۹۰ء کے بعد کی ہی تھی۔ مرتب متن نے اس سلسلے میں صفحہ ۱۰۱ سے ۱۲۳ تک مدلل بحث کر کے یہ ثابت کیا کہ نسیم کے پیش نظر ریحان کی مثنوی ہونے کا امکان ہے لیکن استفا دے یا سرقے کا کوئی امکان نہیں ہے۔
نسیم کے حالات زندگی بھی ممکنہ استناد کے ساتھ پیش کئے گئے اور قطعیت کے ساتھ یہ ثابت کیا گیا ہے کہ دیا شنکر نسیم اپنے آبائی مذہب پر ہی رہے۔ اس کے ساتھ چکبست کی ان روایتوں کو بھی رد کیا ہے جن سے نسیم کی شخصیت خواہ مخواہ کے لئے ایک تنک مزاج غیرمسلم کی بنتی ہے۔ وہ اشعار جن پر مبینہ طور سے نسیم کی گرہ لگانے کا ذکر ہے ان کے بارے میں کالی داس گپتا رضا پہلے ہی لکھ چکے ہیں ۔ اس بازیافت میں بھی چکبست کی اس غیر ضروری جانبداری کی تردید کی گئی ہے۔ اصغر نے نسیم کی غزلوں کا بھی ذکر کیا ہے ان کی غزلوں کے دو مصرعے ہر لمحہ ذہن میں گونجتے رہتے ہیں ۔
جان پڑی تب بار شکم تھے مر کے وبال دوش ہوئے
یہ چاند اس کے ساتھ چلا جو جدھر گیا
لیکن رشید حسن خاں نے نسیم کی غزلوں پر غالباً اس لئے روشنی نہیں ڈالی کہ وہ ان کے دائرہ کار سے باہر تھی۔ البتہ نسیم کی شخصیت پر وہ جتنی معلومات فراہم کر سکے وہ انہوں نے اکٹھا کر دیں ۔
اس بازیافت کا بے حد اہم حصہ معرکہ چکبست و شرر پر محاکمہ ہے صفحہ ایک سو ستائیس سے ایک سو چالیس تک اس معرکہ کا پس منظر بیان کیا گیا ہے صفحہ ۲۳۷ سے یعنی ضمیمۂ تشریحات سے صفحہ ۵۲۰ تک اختلاف نسخ کے ساتھ اس معرکہ کی حلاجی بھی کی گئی ہے۔ جن لوگوں نے اس معرکہ میں حصہ لیا تھا ان کے خیالات بھی اور ان کے بارے میں بہت ساری معلومات فراہم کی گئی ہیں ۔
اس ضمیمہ تشریحات میں بہت ساری ضمنی باتیں اتنی اہمیت رکھتی ہیں کہ ان کا تذکرہ ضروری معلوم ہوتا ہے مثلاً معرکہ چکبست و شرر کے مرتب کا نام تو سید محمد شفیع شیرازی تھا لیکن نقاد لکھنوی کے نام سے جو بزرگ اس معرکہ میں کود پڑے تھے ان کا اسم گرامی نوبت رائے نظر تھا۔ ۷)
’’جیب’‘ اور ’’جیب’‘ کی معلومات آفریں بحث میں پتہ چلا کہ جیب مذکر ہے اور جیب مونث ہے۔ ۸)
اس لطیف فرق سے بس گہری نظر رکھنے والے ہی باخبر ہوتے ہیں ۔ ایک لفظ ’’آشنا’‘ کا بیان ہے۔ ذہن اس طرف نہیں جاتا کہ اس لفظ کے ایک معنی پیراک کے بی ہیں ۔ ۹)
اسی طرح ریگ ماہی کی بحث پڑھئیے تو آنکھیں کھل جاتی ہیں جہاں تک ’’ریگ ماہی میں اضافت کا تعلق ہے تو یہ مرکب لازم’‘ بغیر کسرہ اضافت درست ہے وجہ اس کی یہ ہے کہ اس میں اضافت مقلوب ہے۔ ماہی ریگ (ریت کی مچھلی) مقلوب ہو کر ریگ ماہی بن گیا۔ یہ مسلم ہے کہ ترکیب مقلوب میں اضافت کا زیر نہیں آسکتا۔ اضافت کا زیر مضاف کے حرف آخر کے نیچے آتا ہے۔    میں جو ’’ریگ ماہی’‘ ہے، اسی بناء پر وہ قابل قبول نہیں ہوسکتا۔ مجھے زیادہ تعجب اس پر ہے کہ اردو لغت میں اسے مع کسرہ اضافت ’’ریگ ماہی’‘ لکھا گیا۔ مرتبین لغت نے اس لفظ کی ساخت پر غور ہی نہیں کیا۔ ۱۱)
معلومات کا ایک پرسکون سمندر ہے جس سے ہر سطح کا طالب علم استفادہ کر سکتا ہے۔ کچھ مثالیں درج کی جاتی ہیں :
’’حلوا’‘ الف سے ہے ۱۲)
’’اختراع’‘ کو عموماً مونث سمجھا جاتا ہے، مذکر ہے ۱۳)
ناسخ کا شعر نور اللغات میں غلط درج ہو گیا۔ گرفت کی گئی اور بتایا گیا کہ یہ شعر ناسخ کا نہیں ہے۔ ایک جگہ یہ بھی نظر سے گزرا کہ مالک دروغہ جہنم کو تو کہتے ہی ہیں ، حضرت یوسف ؑ کو جس نے خریدا تھا اس کا نام بھی مالک تھا۔ یہاں ضمناً یہ عرض کرنا ہے کہ ارم بنی عاد کا بادشاہ تھا اور شداد کا دادا تھا۔ اسی کے نام پر شداد نے اپنی ساختہ جنت کا نام ’’باغ ارم’‘ رکھا تھا۔
لغات و محاورہ پر گہری نظر رکھنے کے لئے ساتھ ضمیمہ حصہ دوئم میں جہاں صحیح قرأت کے لئے تلفظ و املا لکھا گیا ہے، وہیں روزمرہ پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ دو مثالیں پیش ہیں :
’’رضا، خوشنودی کے معنی عربی میں ۔ ۔ ۔ آصفیہ میں رضا ہے یعنی ’’ر’‘ پر ’’زبر’‘ بھی ہے زیر بھی۔ سننے میں بالعموم بالفتح اول آتا ہے‘۔
دوسری مثال لفظ ’’خوش خبر’‘ کی ہے۔
نسیم کا شعر ہے
شادی کی خبر سے خوش خوش آئی ۔ ۔ ۔ مشتاق کو خوش خبر سنائی
شرر و چکبست کے مباحثہ کے ساتھ فارسی کے اور حیرت انگیز طور پر خاور نامہ سے اور ذوق کے شعر سے مثال پیش کر کے یہ ثابت کیا ہے کہ نسیم نے غلطی سے اس لفظ کو پیش نہیں کیا بلکہ وہ اسی طرح اس کا استعمال درست سمجھتے تھے۔
بے شمار الفاظ کے لئے صحیح تلفظ اور ان کی ادائیگی کے لئے اعراب بھی لگائے گئے ہیں اور روزمرہ بھی لکھ دیا ہے۔
یہ درست نہیں ہے کہ محقق اس کو کہتے ہیں جو اقلیدسی زبان لکھتا ہو اور تنقیدی صلاحیت سے بے بہرہ ہو بلکہ اگر تجزیہ اور تحلیل کے بغیر تفہیم کی کوشش کی جائے گی تو وہ بے معنی ہو گی اور تنقیدی عمل تجزیہ اور تحلیل سے ہی عبارت ہے۔
رشید حسن خاں کی تحقیق میں دریافت محض نہیں ہے کہ بلکہ اعلیٰ ترین تنقیدی بصیرت ملتی ہے۔ ایک مثال ملاحظہ ہو :
’’بولی وہ کہ ہوے کو ہوا ہے ۔ ۔ ۔ جو غنچہ کو گل کرے صبا ہے
بولا وہ یہی تو چاہتا ہوں ۔ ۔ ۔ گل پاؤں تو میں ابھی ہوا ہوں
یہ شعر بھی حسن تعبیر کا عمدہ نمونہ ہے۔ بیان وہی جنسی عمل کی تکمیل کی علامت قرار دیا ہے۔ ۔ ۔ محمودہ کا یہ کہنا کہ ہوا تو چلتی ہی رہتی ہے جس ہوا سے کلی کھل سکے اسے صحیح معنوں میں صبا کہنا چاہئے۔ اشارتاً یہ خیال ہے کہ جنسی عمل کی تکمیل نہ ہو تو پھر صبا کے وجود (یعنی مرد کے وجود) کا حاصل کیا۔ اس کے جواب میں تاج الملوک کا یہ کہنا ہے مجھے پھول مل جائے تو میں ابھی ہوا بن جاؤں ، پہلو دار انداز بیان ہے اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ مجھے پھول (گل بکاؤلی) مل جائے تو میں بھی وہی کام کروں جو باد صبا صبح کے وقت انجام دیتی ہے یعنی کلی کو کھلاتی ہے (مراد یہ ہے کہ جنسی عمل کی تکمیل ہو جائے)
ایک مفہوم یہ بھی نکلتا ہے کہ پھول مل جائے تو میں ابھی ہوا ہو جاؤں ، یعنی فوراً چل دوں ، ہوا ہو جانا محاورہ ہے’‘ ۱۴)
عملی تنقید کے اس اعلیٰ معیار کے پیش نظر جی چاہتا ہے کہ دو مثالیں اور درج کی جائیں تاکہ گلزار نسیم کی تدریس کے وقت فاضل اساتذہ کرام یہ دیکھیں کہ اشعار سمجھانے کے لئے اور طالب علم میں ادب سے دلچسپی پیدا کرنے کے لئے کیا طریقہ اختیار کیا جانا چاہئے۔
’’جو نخل تھا سوچ میں کھڑا تھا ۔ ۔ ۔ جو برگ تھا ہاتھ مل رہا تھا
اس سے پہلے شعر میں کہا گیا ہک شمشاد دم بخود کھڑا تھا۔ یعنی ساکت خاموش۔ اس شعر کا پہلا مصرعہ بھی اس مفہوم کو دہرا رہا ہے اور ہر درخت چپ چاپ دم بخود تھا۔ دم بخود ہونے اور سوچ میں کھڑے رہنے کا مضمون اس نسبت سے پیدا کیا ہے کہ ہوا سے پتیاں تک نہیں ہل رہی ہیں مگر دوسرے مصرعہ کا انداز بیان اس صورتحال کے منائی ہے، ہوا چلنے سے پتے ہلتے ہیں اور ایک دوسرے سے رگڑ بھی کھاتے ہوں ، اسے (عالم حیرت و افسوس میں ) ہاتھ ملتے سے تعبیر کیا ہے لیکن پتوں کا ہوا سے اس طرح متحرک ہونا، درختوں کے دم بخود کھڑے ہونے کے منافی ہے۔ نخل اور برگ کی رعایت نے معنوی پہلو کی طرف شاعر کی توجہ منعطف نہیں ہوے دی اور بیان کی اس خامی تک اس کی نظر نہیں پہونچ سکی۔ اس شعر کے دونوں مصرعوں میں الگ الگ انداز سے صنعت حُسن تعلیل ہے۔ درخت کے ساکن ہونے کی وجہ سے ہوا کا نہ چلنا، مگر شاعر نے ایک شاعرانہ وجہ اس کے لئے فراہم کی ہے کہ وہ حیرت و افسوس کی تصویر بن گیا تھا، ساکٹ، دم بخود، دوسرے مصرعے میں ہوا سے متحرک ہونا اصل وجہ ہے، مگر یہاں بھی شاعر نے ایک دوسری شاعرانہ وجہ بتائی ہے۔
یہاں مجھے ثاقب لکھنوی کا یہ مشہور شعر یاد آ گیا
باغباں نے آگ دی جب آشیانے کو مرے
جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے
نسیم سے تقابل منظور نہیں ۔ ہو بھی نہیں سکتا۔ صرف یہ کہنا ہے کہ ہوا سے پتوں کے متحرک ہونے سے ایک دوسرے شاعر نے ایک مختلف کام لیا ہے اور حس بیان کے لحاظ سے وہ کامیاب رہا ہے‘۔
عملی تنقید کی ایک اور مثال ملاحظہ ہو
’’بیڑی تھی رخ جنوں کی کاکل ۔ ۔ ۔ پابوسی گل کو آیا سنبل
اس سے پہلے شعر میں کہا گیا ہے کہ بکاؤلی کے پیروں میں بیڑیاں ڈال دیں ۔ اس شعر میں نہایت عمدہ شاعرانہ تعبیرات کے ذریعہ اس خیال کو ادا کیا ہے کہ وہ تو محبت کی زنجیروں میں خود گرفتار تھی۔ کاکلوں کو زنجیروں سے تعبیر کیا ہے۔ کاکلیں چہرہ پر بکھرتی ہیں ۔ اس رعایت سے رخ جنوں کہا گیا ہے۔ پہلے مصرعہ میں ’’بیڑی’‘ آیا ہے بیڑیاں پیروں میں ڈالی جاتی ہیں ۔ اس نسبت سے دوسرے مصرعہ میں ’’پا’‘ کا لفظ لایا گیا ہے۔ رخ اور کاکل پا اور پیروی میں مناسبت ہے ۔ مگر ان سب رعایتوں سے بڑھ کر یہ تعبیر بے مثال ہے کہ اس کے پیروں میں بیڑیاں ڈالی گئیں ، تو ایسا معلوم ہوا کہ گل کے پیر چومنے کے لئے سنبل نے اپنی لٹیں پھیلا دی ہیں ۔ گل سے مراد بکاؤلی ہے اور سبنل (بالچھڑ) تو شعراء محبوب کی زلفوں سے اور گیسو سے تشبیہ دیتے ہیں اس نسبت سے اسے زنجیروں سے بھی تعبیر کرتے ہیں ۔ (نسیم نے خود بھی کہا ہے: ’’مشکیں کس لی نہ تو نے سنبل‘) ۔ سنبل پھیل کر پھول کی شاخوں میں (یعنی پیروں ) میں لپٹ جاتا ہے یعنی گل کے پیر چوم رہا ہے۔ بکاؤلی کے پیروں میں بیڑیاں بھی ایسی ہی معلوم ہوتی ہے جیسے اس کی قدم بوسی کے لئے آئی ہوں ۔’‘ ۱۶)
اس بازیافت میں بے شمار محاسن ہیں ۔ اس کے ماخذ کے سلسلے کے مباحث گل بکاؤلی کے قصہ اور دیگر ہندوستانی قصوں کے درمیان مماثلتوں کی تلاش، معرکہ، چکبست و شرر میں جرأت مندانہ ایمانداری کے ساتھ محاکمہ اور دونوں کی انتہاپسندی کی نشاندہی، گلزار نسیم کے مختلف نسخوں کے درمیان اختلاف نسخ کی تشریح معافی و بیان کے ساتھ علم بدیع کی روشنی میں گلزار نسیم کی صنعتوں اور دیگر محاسن کا تذکرہ۔ ۔ ۔ یہ سب مل کر اس بازیافت کو نہایت اہم بناتے ہیں لیکن ان سب سے بالاتر وصف اصل متن، یعنی شیخ عزت اللہ بنگالی کے فارسی کے متن کی پیشکش ہے۔ اس متن کا تذکرہ پڑھا اور سنا گیا مگر اسے دیکھنے کا شرف پہلی بار ملا۔
رشید حسن خاں کی عالی ظرفی قابل ستائش ہے۔ اس کتاب کا انتساب نیر مسعود کے نام ہے۔ انتساب عموماً دنیاوی فائدہ کے لئے کیا جاتا ہے۔ یہ انتساب علمی دیانت کا بھی مظاہرہ ہے اور اپنے سے کم عمر محقق کے لئے اعتراف خدمات کا درجہ رکھتا یہ۔ نیر مسعود بہت بڑے باپ کے بہت بڑے بیٹے ہیں اور بقول شخصے موتی لال نہرو کے جواہر لال نہرو ہیں ۔ حالانکہ وہ فارسی کے فارس میدان کی حیثیت سے معروف ہیں لیکن اردو ادب کو بھی انہوں نے بہت کچھ دیا ہے۔ شاید گیان پیٹھ ایوارڈ سے بھی انہیں (اور ہم سب کو) اتنی مسرت نہ ہوتی جتنی گیان چند کے توصیفی کلمات اور رشید حسن خاں کے اس انتساب سے ہوئی ہے۔ اس انتساب کے لئے رشید حس خاں کو مبارک باد!
عالی ظرفی کے ساتھ وہ اعلیٰ اخلاقی جرأت بھی رکھتے ہیں ۔ جس عربی عبارت کو وہ خود نہ پڑھ سکے تھے انہوں نے اس کے لئے بنارس کے ظفر احمد صدیقی سے مدد لی۔ ڈاکٹر ظفر احمد صدیقی نے شاعر کی نشاندہی کی اور اشعار نقل کر کے بھیجے۔ رشید حسن خاں نے ان کا شکریہ ادا کیا۔ اسی طرح وہ شعر نمبر ۱۳۰۔
دانا تھی جہل خانہ آئی ۔ ۔ ۔ بگڑی ہوئی کو بنانے آئی
جہل خانہ کو جیل خانہ پڑھتے تھے۔ مولانا عرشی نے متوجہ کیا کہ پرانا لفظ جہل خانہ ہے۔ انہوں نے اپنی اصلاح بھی کی اور اپنی غلطی کا اعتراف بھی۔
ایک بات۔ اسے ایک ادنیٰ سے طالب علم کی تمنا سمجھنا چاہئے، اگر موصوف نے اس کی بھی وضاحت کر دی ہوتی کہ نسیم نے ہر جگہ قلم کی اہمیت کی طرف کیوں متوجہ کیا اور حمد باری کو قلم کا ثمرہ کیوں قرار دیا اور میر حسن نے ساقی کو کیوں مخاطب کیا ہے، تو کتنا اچھا ہوتا! درسگاہوں کے لاکھوں اساتذہ انہیں دعائیں دیتے۔!
تحقیق میں توقیت نگاری دلچسپی پیدا کرتی ہے اور اس میں تاریخ کا سا مزا آنے لگتا ہے۔ راقم الحروف کو یہ لکھنے کاحق ہے اگر سلیقہ تحریر ہے تو اس طرح کی تحقیقی کتابیں پراسرار اور تجسس سے بھری ہوئی ناولوں سے زیادہ دل کش اور دلچسپ ہوتی ہیں ۔ کیونکہ ناولوں سے معلومات نہیں فراہم ہوتیں اور یہاں ہر جہا جہاں دیگر نظر آتا ہے۔ سلیقہ، تحریر کے لئے شائستہ مگر خوبصورت زبان ضروری ہے۔ رشید حسن خاں کے دو تین جملے ملاحظہ ہوں :
’’بعض مقامات پر انداز بیان نے یہ صورت پیدا کر دی تھی کہ سخن فہمی پر طرف داری کا رنگ غالب آ گیا تھا‘۔
’’دونوں طرف سے ایسی تحریریں لکھی گئیں جنہیں پڑھ کر معقولیت کا سر شرم سے جھک جاتا ہے اور شائستگی آنکھیں بند کر لیتی ہے۔‘
اتنی خوبصورت زبان لکھنے والا جب ’’استعمالات’‘ لکھتا ہے تو ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے ذوق سلیم کا اسپ صبا رفتار سکندری کھا گیا ہو۔ کیسے ان لوگوں سے شکوہ کیا جاسکے گا جو لفظوں کی ’’سینڈوچ’‘ بناتے ہیں اور تیتر بٹیر زبان لکھتے ہیں ۔
اسی طرح صفحہ ۲۹۹ پر ’’مختارات’‘ کا لفظ ملا۔ ہوسکتا ہے کہ ’’مخترعات’‘ کی کتابت کی غلطی ہو۔ یہ بھی ممکن ہے کہ راقم الحروف کو ناواقفیت کی بناء پر یہ لفظ کھٹکا ہوا۔ حالانکہ عبا بردوش و عمامہ برسر افراد سے بھی اس طرح یہ لفظ سننے کو نہ ملا۔
ص ۴۰۵ پر ایک مصرعہ غلط درج ہو گیا۔ لکھا ہے کہ
ہر سخن موقع و ہر نکتہ مکانے دارد
دراصل یہاں لفظ ’’مقامے’‘ ہے۔ میر انیس کا مشہور بند
’’ہے کجی عیب مگر‘۔ ۔ ۔ الخ کی بیت ہے :
داند آنکس کہ فصاحت بکلامے دارد
ہر سخن موقع و ہر نکتہ مقامے دارد
رشید حسن خاں کی مرتبہ کتابوں میں اغلاط تلاش کرنے پر بھی نہیں ملتیں لیکن ص ۱۶۰ پر شعر نمبر۱۴۸ میں ’’چکھوں ‘‘ کے بجائے ’’چھکوں ‘‘ ہو گیا ہے۔
اشعار کے متن کے سلسلے میں کہیں کہیں ان سے اختلاف ہوسکتا ہے ۔ مثلاً شعر نمبر۱۲۰ میں ’’سلطنت ہی’‘ کے بجائے ’’سلطنت ہے’‘ مرجح معلوم ہوا۔ اسی طرح شعر نمبر ۱۹۷ میں دوسرا مصرعہ ’’تارے میں اتاروں آسماں سے’‘ زیادہ اچھا لگتا ہے۔
استخارہ کے معنی (۱۲۷۰) لکھتے ہیں :
’’کام کرنے یا نہ کرنے کے بارے میں غیبی اشارہ معلوم کرنا۔
(۱) عشاء کی نماز بعد دعائے استخارہ پڑھ کر اس امید میں سوجانا کہ خواب میں رہ نمائی ہو۔
۲ ۔ درود اور مقررہ دعا پڑھ کر تسبیح کا تھوڑا سا حصہ دونوں چٹکیوں سے پکڑنا اور دو دو دانے کر کے طرح دینا۔ آخر میں طاق سے اجازت اور جفت سے مخالفت کا حکم لگانا۔
۳ ۔ خاص دعا پڑھ کر قرآن کریم کھولنا اور مقررہ اصول کے مطابق حکم الٰہی دریافت کرنا۔ دیوان حافظ سے فال لینا ۱۹)
استخارہ کے اصل معنی ہیں طلب خیر۔ اس میں پہلے معنی پر القاء کا اطلاق ہو گا۔ دوسرے معنی میں دراصل استخارے کا ایک طریقہ ہے۔ تیسری شکل فالکی ہے، استخارہ کی نہیں ۔ استخارہ کی ایک قسم ذات الرقاع کہلاتی ہے۔ ایک استخارہ سجادیہ ہوتا ہے۔
یہ کچھ فقرے اس لئے بھی لکھے گئے کہ اس اہم تحقیقی کارنامے کو صحیفۂ آسمانی نہ سمجھ لیا جائے۔ ورنہ سچ تو یہ ہے کہ اس کتاب کا ایک ایک لفظ بکاؤلی کے پھول کی طرح ذوق سلیم کی آنکھوں کو ادبی بصیرت عطا کرتا ہے۔ تحقیق کی دنیا میں جو ایک طرح کا سناٹا سا ہو گیا تھا اسے رشید حسن خاں نے دور کیا ہے۔ وہ اردو تحقیق کی آبرو ہیں اور گلزار نسیم کی یہ بازیافت اردو تحقیق کا ایسا پھول ہے جن کی خوبی دلوں کو تسخیر کرتی ہے اور جس کی مہک لازوال ہے۔
اردو داستانیں
’’اور انہیں منع کیا گیا تھا کہ وہ اس درخت کے پاس نہ جائیں ’’مگر وہ بہکاوے میں آئیں گے اور جیسے ہی اس درخت کے قریب آئے دونوں کے سر کھل گئے اور وہ پتوں سے اپنے جسم کو ڈھانکنے لگے۔ انہیں ندامت ہوئی کہ وہ سا درخت کے پاس کیوں گئے؟ کھلے ہوئے صریح دشمن کی باتوں میں کیوں آ گئے؟ انہوں نے توبہ کی۔ اور پھر ا نہیں دنیا میں بھیج دیا گیا۔
لیکن وہ درخت کیسا تھا؟ کیا وہ شجر حیات تھا یا شجر شباب یا شجر حسہ؟ اس کی وجہ سے شتر کیوں کھل گیا؟ اگر اس درخت کو ہی تسخیر کلیا ہوتا تو یہ ندامت نہ ہوتی اور اس طرح سے نکالے نہ گئے ہوتے مگر اب جب یہاں آ ہی گے ہیں تواس مکار کی دلفریب باتوں میں نہ آنا چاہئے اس لئے لڑنا چاہئے تاکہ پھر ستر نہ کھل جائے۔
ارد وداستانوں کا محور خیر و شر کی یہی معرکہ آرائی اور تسخیر فطرت کی یہی کوشش ہے یعنی شجر حیات کا راز جانے کی تمنا اور تڑپ اور پلکوں پر سجے ہوئے خوابوں کی تعبیر پا لینے کی آرزو۔
اس روشنی میں کسی داستاں پر نظر ڈالئے یہ معلوم ہو گا کہ ایک طرف خیر کی طاقت شر سے نبرد آزما ہے دوسری طرف خیر کی قوتیں اس کائنات کی تسخیر کرنا چاہتی ہیں اس راز کو معلوم کرنا چاہتی ہیں جو راز نہ جانے کی وجہ سے ندامت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ راز جاننے کی یہ کوشش اپنا آئیڈیل بھی رکھتی ہے اور یہ آئیڈیل ہے۔ زندگی کو حَسین سے حَسین تر بنانا اور انسانی عظمت کا اعلان۔ یہ جو طلسمات کی معرکہ آرائیاں ہیں یہ جو پہاڑ ریزہ ریزہ ہو جاتے ہیں دریا خشک ہو جاتے ہیں ، ریگستان میں سمندر کا تموج پیدا ہو جاتا ہے درخت بولنے لگتے ہیں پھر شعلہ صفت بن جاتے ہیں ۔ افراسیاب ہزاروں میل کے فاصلے تو چشم زدنی میں طے کر لیتا ہے۔ عمر و عیار گلیم کے ڈرامہ سب کی نظروں سے اوجھل ہو جاتا ہے تخت رواں فضاء میں پروانہ کرتا ہے۔ یہ سب اور اس قبیل کے ہزارہا واقعات تسخیر فطرت وتسخیر زماں و مکاں کا عمل انجام دیتے ہیں ؤ یہ جادوگر ہوں یا عامل یا خدا پرستوں کی صف میں شامل ہونے والے جادوگر۔ یہ سب کسی نہ کسی نہج سے تسخیر کائنات یا تسخیر فطرت کے عمل میں مصروف نظر آتے ہیں ۔
نمبر ۱  و نمبر۲ پر طلسم ہوشربا کے کردار ہیں ۔
اب فرق یہ ہے کہ اس تسخیر فطرت کا کوئی مقصد ہونا چاہئے، اگر یہ تسخیر انسانی عظمت کا اعلان نہیں کرتی۔ اسے دنیا میں جھگڑنے والا۔ خودپرست خونی بہانے والا، انسان کے اقتدار کو انسان پر مسلط کرنے والا بنا دیتا ہے اور پر فریب ماحول کی تخلیق کرتی ہے تو تسخیر فطرت کی یہ کوشش شر ہے۔ لیکن یہ شر بالکل اسی طرح نظر آتا ہے جس طرح ساحری کا سنہرا بچھڑا بولتا تھا۔ با جس طرح فرعون کے جادو گروں نے لکڑی کے سانپ بنا کر اس کے اندر پارہ بھر دیا تھا اور وہ شعاع آفتاب پڑتے ہیں ذراسی گرمی کی وجہ سے متحرک ہو کر سانپ کس طرح رینگنے لگتے تھے اور فریب نظر کی کیفیت پیدا کر رہے تھے۔ اس فریب کو ٹوٹنا چاہئے، ظاہر ہے کہ جب فریب کی دنیا ٹوٹتی ہے تو طلسم ٹوٹتا ہے اور یہی کام طلسم کشا انجام دیتا ہے اور شر ہو یا فریب یا طلسم اسے توڑنے والا خیر کی غیبی طاقتوں کا نظر کر دہ ہی ہوسکتا ہے۔
اس طرح تسخیر فطرت اور خیر و شر کے تصادم کا عمل ایک دوسرے سے جڑا ہوا ہے۔ تسخیر فطرت کے جس مقصد کی بات ہو رہی تھی وہ مقصد زندگی کو خوبصورت بنانا ہے اور زندگی کو حَسین بنانے کے لئے کچھ خواب دیکھنے ضروری ہیں ۔ تو خوابوں کا ایک جزیرہ بھی ہونا چاہئے۔ رنگ برنگی تتلیوں کا ۔ اسی تتلیوں کا۔ جن کا مشاہدہ ممکن نہیں ہے اور جب مشاہدہ نہیں ہوسکتا تو پھر تجربے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ لیکن اگر ان تتلیوں تک پہونچنا ہے تو پھر جو بھی دشواریاں ہوں گی ان پر بھی قابو پانا ہو گا۔ کوئی اور مخلوق بھی ہوسکتی ہے جو ان تتلیوں کو پکڑنا چاہتی ہے لیکن وہ ہماری طرح نہیں ہوسکتی اس کے سر پر سینگ ہوسکتے ہیں وہ ہم سے کئی گنا طاقتور ہوسکتے ہیں ۔ منہ سے آگ نکل سکتی ہے وہ مختلف پیکروں میں اپنے کو ظاہر کر سکتے ہیں لیکن کچھ بھی ہو۔ ہم انسان ہیں ہمارے پاس عقل ہے ہم اس مخلوق کو تتلیاں نہیں پکڑنے دیں گے۔ یہ تتلیاں تو ہماری ہیں ۔
اب یہ نئی دنیا جس میں دیو، جن اور پریاں ہیں ، یہ دنیا بھی ہمارے خوابوں کی تعبیر کی ایک شکل ہے۔ یہ تسخیر فطرت بھی ہمارے وہ خواب ہیں جنہیں آج ہم بہت ساری اشیاء میں حقیقت کی شکل میں دیکھتے ہیں ۔
ہیگل نے کہا تھا تخلیق کا کار تخیل معمار کی تعمیر پر تفوق رکھتا ہے۔ آج مزائل، ہائیڈروجن بم، طیارے، آبدار کشتیاں ، راکٹ، خلائی جہاز، ٹیلی ویژن، یہ سب ہمارا کل کا خواب تھے۔ وہ چاہے ملکہ براں کا اختر مروارید ہو یا باغ سیب میں افراسیاب کا آئینہ جمشیدی یا فضاء میں پرواز کرنے والے جادوگر۔ ’’زمین پر تھیکی دی اور دوسرے لمحے فضاء میں بلند ہوئی اور پھر بادلوں میں غائب ہو گئی‘۔ ماضی میں یہ انسانی تخیل کے خواب آج کیا حقیقت نہیں بن گئے ہیں ؟
آج خلاء میں جو فضائی کشتیاں ہیں وہ یہی تو ہیں جو نت نئی رنگین و تباہ کن ایجادات ہیں ۔ انہیں خوابوں میں کی تو ایک لقد پر بالتعبیر سمجھنا چاہئے۔ یہی تعبیر جو مکمل خواب تھی آج سائنسی ارتقاء کے معزز لقب سے سرفراز ہے۔
لیکن داستانوں کا مطالعہ کرتے ہوئے اس پہلو کو بھی یاد رکھنا چاہئے کہ کہیں اگر انسان سے اس کے خواب چھن گئے ہوئے تو زندگی کتنی بے کیف بے رنگ اور بے مزہ ہوتی اور یہ ارتقاء کی کہانی آج نہ ہوتی۔ ایک بے کیف جمود، اکتا دینے والا ٹھہراؤ اور یکسانیت سے لبریز فضاء۔ انسان کا مقدر ہوئی ! لیکن خیر و شر کی کشمکش تسخیر فطرت کا جذبہ اور خواب کی تعبیر پا لینے کی تمنا۔ یہ وہ تین گوشے تھے جنہوں نے زندگی کو بچا لیا۔
ان تینوں گوشوں پر جب غور کیا جاتا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ بہرحال ان کا تعلق تخیل سے ہے لیکن تخیل کا ملکہ انساں کے پاس ہوتا ہے اور انساں ایک دوسرے کے ساتھ رہتے ہیں ۔ ان کا اپنا ایک طرز پود و ماند ہوتا ہے ان کی تخیل بھی ان کی معاشیات اور معاشرت سے و ابستہ ہوتی ہے۔
چار ہزار پانچ سو سال قبل مسیح جب شاہ خامغرمی کی داستا لکھی گئی تو اسوقت تخیل میں اتنی ہی پرواز تھی کہ بادشاہ کی بیوی اپنے غلام سے پھنس جائے ناؤ لنگر سے ٹھہری ہوئی ہو۔ بی بی اٹکی ہوئی ہو نوکر سے اور ویدوں کے عہد میں انسانی تخیل یہاں تک آیا کہ ایک برہمن دانشور خود کو کوڑھی بنائے ہوئے ہے اور آگے بڑھے تو یہ تخیل جانوروں کیو حکایات سنانے یا حکایات السبب میں انسانوں کی طرح بولنے پر غاب کرتا رہا البتہ مہرشی ویاس نے عالمی ادب میں پہلی بار انسانی تخیل کو بے پناہ وسعت عطا کی اور یہ سمجھایا کہ ایسے قصوں کو بے معنی اور لایعنی نہ سجھو جن کی بنیاد تخیل پر ہو۔ بلکہ ان میں زندگی کے بنیادی رموز و نکات تلاش کرو۔ تمہاری سمجھ میں آ جائے گا کہ انسان اپنے کرموں کا پھل بھوگتا ہے اور ہر فرد کو اپنے دھرم کا پالن کرنا چاہئے۔ لیکن مہابھارت کی یہ تخیلی وسعت اپنائی نہیں جاسکتی تھی یہ عروج تھا۔ اعتقاد کے آئینہ میں تخیل کی صورت گری کا۔ اس لئے تخیل نے دوسرا راستہ اپنایا۔ تخیل نے ایک روح کو دوسرے کے قالب میں جاتے ہوئے دیکھا۔ کہیں کوئی درخت سے الٹا لٹک گیا اور طوطا بن کر دانشور ہو گیا۔ کہیں آدھا دھڑ انسان کا اور آدھا حیوان کا ہو گا۔ ایسا محسوس ہونے لگا جسے تخیل میں ایجاد و اختراع باقی نہ رہ گیا شاید اس کا سبب بھی تھا اور وہ یہ کہ چراگاہی دور میں انسانی فکر صرف یہی چاہتی تھی کہ اچھا آدمی بننے کے لئے اور زندگی کو حَسین سے حَسین تر بنانے کے لئے اخلاقیات کا سہارا کافی ہے۔ اس اخلاقیات میں ایجاد و اختراع اور امور فطرت کا انکشاف نہ تھا۔ مگر ان سب کا میں وہ طرز معاشرت ضرور تھا جس معاشرت میں یہ لوگ سانس لے رہے تھے۔ وہ تہذیب بھی تھی جو انہوں نے اپنائی تھی۔ فنون لطیفہ سے ان کی وابستگی کا اظہار بھی تھا۔ فن تعمیر مصوری باغبانی۔
مصر کی داستانوں میں گل گاش کا ذریعہ بہت مشہور ہے جس میں انکدو کے محاریات، سبابا کا قتل اور عشتار سے محبت ملتی ہے۔ لیکن سب سے اہم نکتہ شجر جنات کی تلاش ہے اور شجر جنات کے بجائے سجر شباب کا ملنا ہے اور وہاں بھی بیٹھا ہوا ایک سانپ۔
یہ پہلی داستاں تھی جس نے حیات انسانی کے رموز کو ظاہر کرنے کے لئے ایک لطیف سا پردہ ڈال دیا۔ یہ اس طرح کا پردہ تھا کہ دونوں تصویریں متوازی ملتی تھیں ۔ اسی کو بعد میں تمثیل کا نام دیا گیا جہاں دو معنی متوازی طور پر چلتے ہوں ۔ چونکہ انساں ازل ہی سے شجر شباب سے دھوکا کھا چکا تھا اس لئے اس نے شجر جنات کی تلاش شروع کر دی۔ وجہی نے سب اس میں اسی شجر حیات کو آب حیات کے تصور میں پیش کرتے ہوئے تمثیلی رنگ اختیار کیا اور بنیاد ہی محور حُسن اور عشق کو رکھا۔ یقیناً اس میں تصوف کے مراحل ہیں لیکن صرف یہ بات عرض کرتی ہے کہ حُسن کا یہ تصور زندگی کو خوبصورت بنانے کی تڑپ اور تمنا کا دوسرا نام ہے۔
اردو داستانوں کا مطالعہ کرتے ہوئے یہ پہلو یقیناً پیش نظر رہنا چاہئے۔ عام طور پر سرسری نظر ڈالنے والے انہیں کبھی بے سروپا قصہ کہتے ہیں کبھی زوال آمادہ تہذیب کی یادگار کہتے ہیں اور کلیم الدین احمد کی طرح آگے بڑھتے ہیں تو انہیں خط و مسرت و انبساط کی شئے کہہ کر خاموش ہو جاتے ہیں ۔ گیان چند اور وقار عظیم ا سے ہماری تہذیبی وراثت قرار دیتے ہیں ممتاز حسیں خود کو تصوف کے باغ اور مشن کی بہار میں محصور کر کے باغ و بہار کی ج ادو بیانی ہی کو سب کچھ سمجھ لیتے ہیں ۔
آئیے دیکھیں کہ اردو داستانوں کی دنیا میں کتنی وسعت ہے ۔ اردو کی بنیادی داستانیں تو یہ ہیں ۔
آرائش محفل، انشائے گلشن نو بہار، مستانہ عجائب، سب اس لقمہ مہر افروز و بر، ملک محمد گیتی افروز، باغ و بہار (چہار درویش) رانی کیتکی کی کہانی گل بکاؤلی، گل صنوبر، داستان امیر حمزہ، معہ متعلقات، بوستان خیال۔
ان داستانوں میں الف لیلہ کو شامل نہیں کیا گیا کہ اس کا تعلق براہ راست ہندوستا نسے نہیں ہے۔
متذکرہ بالا داستانوں میں جو پہلو ملتے ہیں ان کی طرف صرف اشارے کئے جا رہے ہیں لیکن اس سے پہلے ایک گوشہ کی طرف متوجہ کرنا ضروری ہے ۔کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ہمیں حرکت پیدا کرنے کے لئے یا کسی کو راہ راست پر لانے کے لئے دوسروں کو واقعات سنانے پڑتے ہیں ۔ یہ واقعات آئیڈیل ہوتے ہیں ۔ ان میں مبالغہ ہوتا ہے مگر یہ مبالغہ مستحسن ہے اس لئے کہ اس کا مقصد زندگی کو بہتر بنانا ہے۔ ۱۸۵۷ء کے بعد معاشرے میں انحطاط آیا تھا اسی انحطاط پذیر دور میں داستانیں اس لئے سنائی جاتی تھیں کہ
دوڑے تو ایک بار رگوں میں تیزی سے خون محرومی
ہوسکتا ہے کہ یہ داستانیں ۔۔۔۔۔ کی چکی لے کر لکھی گئی ہوں لیکن ان میں کہیں نہ ۔۔۔۔۔ ہیں اور ان کے اثرات ایندنی بنے کی ترغیب دیتے ہیں ۔ ہر تو قوت عمل کو ابھارتی ہیں ۔ اور جو ’’’بازیاں ‘‘ اس دور میں رائج تھیں ان بازیوں سے منحرف کرنے کا گر جانتی ہیں ۔ اس لئے کہ محاریات مشکلات کا سامنا کرنا حالات سے لڑنا، منزل مراد تک پہنچنے کے لئے اپنی صلیب اپنے کانا حصولی پر اٹھائے چلنا۔ اس طرح کے واقعات اور یہ طرز تحریر کسی معاشرے کو سلاتے نہیں ۔ جگاتے ہیں اور طلسم کشاؤں کے واقعات تو صاف صاف بناتے ہیں کہ زیادہ سونا اسی طرح مدت کی علامت ہو گی جس طرح جادوگروں کی مدت واقع ہو گئی۔
ضمناً یہ پہلو عرض کیا گیا ہے اب ذرا اس پر نظر ڈالی ج ائے کہ داستان ہے کیا۔ داستاں کے لغوی معنی نغمہ کے ہیں لیکن عام طور پر اس سے مراد طویل قصہ ہوتا ہے۔
اردو میں دو اصناف ایسی ہیں جو نگارش سے بھی تعلق رکھتی ہیں ۔ مگر ’’تفنن’‘ سے جن کا تعلق زیادہ ہے۔ یہ اصناف داستان اور مرثیہ ہیں ۔ داستان گوئی ہو یا مرثیہ نگاری۔ یہ دونوں کہنے کے فن ہیں اور جب کوئی بات کہی جاتی ہے تو اس کے لئے سننے والا کا ہونا لازمی شرط ہے۔ کہنے کا فن ایسا ہونا چاہئے کہ سننے والا اپنی ذات کو بیان کی ہوئی باتوں سے الگ نہ سمجھے بلکہ خود کہنے والے کے ساتھ ساتھ رہے۔ اس کو ارسطو نے ڈرامہ کے ضمن میں خطابت سے تعبیر کیا ہے۔ داستاں گوئی بھی ڈرامہ کا فن ہے اس میں بھی خطابت ہے اور اس لئے داستاں کا امتیازی وصف اس کی ڈرامائیت ہے۔ کہیں یہ نہیں معلوم ہو گا کہ واقعات بیان کئے جا رہے ہیں بلکہ ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے سب کچھ نظروں کے سامنے ہو رہا ہے۔ ہماری چشم گناہگار پر منظر تو دیکھ رہی ہے۔ یہ ملکہ بہار آئی، اس نے گلے سے ہار اتارا۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چلی۔ بہار نے مخالف پر پھولوں کا ہار پھینکا اور وہ دیوانہ ہو گیا۔ اس طرح کا طرز تحریر ایک خاص طرح کے لہجہ کا مطالبہ کرتا ہے۔ ایسا لہجہ جو ادا کیا جاسکتا ہے۔ سن کر وہ غازی مرد نعرہ بھرتا ہوا چلا’‘ ۔ ’’برس دن کا ہرجے مرجے کھینچتا ہوا شیر نمبروز پہونچا۔
اس طرح کی بھارت میں رستمرار ہے۔ ماضی نہیں ۔ ’’تھا’‘ نہیں بلکہ ’’ہے’‘ اور یہ لہجہ اس طرح کے الفاظ کی نشست کا مطالبہ کرتا ہے کہ اسے پڑھا جائے تو ایسا معلوم ہو کہ بولنے والے کی آواز کانوں میں گونج رہی ہے۔ لفظوں کی نشست سے بولنے والے کے لہجہ کا یقین ہو جائے۔ اس لئے اس طرح کی عبارت لکھنے والے کو صناعی کا شعور بھی ہونا چاہئے اور یہی وجہ ہے کہ پرامن ہوں یا سرور یا جاہ و قمر یا منشی رتبہ پرشاد ان سب کے پاس منشر میں صناعی کا تصور ہے۔
داستانوں میں صناعی سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ البتہ ان کے صناعی کے تصور سے اختلاف ضرور ممکن ہے۔ مثلاً جب علی بیگ سرور کی صناعی۔ کسی عروس کو اتنے قیمتی کپڑے پہنانے کے مترادف ہے کہ صرف کپڑا ہی نظر آئے۔ دل آویز خطوط جسم چھپ جائیں ۔ لیکن اس کپڑے کی قدر و قیمت کو کم نہیں کیا جاسکتا۔ بہرحال وہ کپڑا خوبصورت ہے اور سرور کی صناعی داستا کا جز و اعظم ہے۔
اس طرح داستان کے اسلوب کا امتیازی وصف اس کا لہجہ اس کی ڈرامائیت اور اس کی صناعی کی ہے۔ جس طرح اس مضمون کا آغاز۔ ایک شجر سے ہوا تھا لیکن اس میں بہت ساری شاخیں نکل آئیں بالکل اسی طرح ہر داستاں کا بنیادی حصہ ایک ہوتا ہے مگر اس میں متعدد شاخیں نکل جاتی ہیں ۔ اس لئے داستان کے لئے یہ ضروری کہ وہ قصہ در قصہ ہو۔ کیونکہ یہی قصہ در قصہ ہونا زندگی کے تنوع اور رنگا رنگی کی دلیل بن جاتی ہے۔
جیسا کہ عرض کیا گیا۔ داستاینں خوابوں کے جزیرے میں پلتی ہیں ۔ اور خواب کی بنیادیں تخیل کی جولانی ہوئی ہے۔ اسی خواب اور تخیل کی جولانی کو خون فطرت کہا جاتا ہے اور خون فطرت سے مراد کچھ جادوگری۔ کچھ سحر و ساحری، کچھ غیرانسانی مخلوق سے نبرد آزمائی بھی ہے۔ لیکن ایسا ہمیشہ نہیں ہوتا۔ باغ و بہار میں پہلے درویش کی سیر میں ایسا کچھ نہیں ہے۔ لیکن اس میں خواب ہیں ۔ سوداگر زا دے کو شہزادی و عشق مل جاتی ہے خواب دیکھتا ہے تو کہ فیصل سے جو صندوق اترتا چلا آتا رہا ہے اس میں دولت ہو گی لیکن نکلتی عورت ہے۔
داستان کے دو امتیازی اوصاف اخلاقیات اور جمالیات ہیں اس کی جمالیات میں حُسن اور اظہار عشق پر کوئی پابندی نہیں اور اس کی اخلاقیات میں نہ نذیر احمد کا وعظ ہو گا اور نہ راشد الظہری کا لکچر۔ بلکہ اس کی اخلاقیات کا محور انسانی اقدار کا تحفظ اور خودپرستی کے حصار کو توڑنا ہو گا۔
ان داستانوں میں صرف خیال کی کرشمہ سازیاں تھیں ان میں علوم و فنون کا ایک سجر ذخار ہے۔ بوستان خیال کے ترجمہ میں خواجہ امان نے صدانق الانظا میں داستان کی جو شرائط گنوائی ہیں ان میں اس بات پر بھی زور دیا ہے کہ داستان میں تاریخ کا مزہ آ جائے اور علاوہ ازیں بے جد و ۔۔۔۔۔ مسئال جو علم نجوم سے متعلق ہیں انہیں بھی پیش کیا ہے جسے بوستان خیال میں حکیم استلینوس نے طلسم اجرام و اجسام ترتیب دیا ہے۔ حکیم قرطاس الحکمت اس طلسم کے سربراہ ہیں ۔ حکیم ابوالمحاسن اور کلیم ترشی جان اس کے نگراں ہیں ۔ پورا طلسم کا فلسفہ، عناصر کا اسقل السانلین سے احسن تقدیم تک کا سفر ہے اور عناصر اربعہ کی جگہ سات عناصر اور سات مراحل نظر آتے ہیں ۔ طب کے سینکڑوں مسائل طلسم ہوشربا میں بھی ملتے ہیں اور دوسری داستانوں میں بالخصوص باغ و بہار میں ۔ مثلاً نمرود کے قصے میں ’’سادھو کے ذکر میں ‘‘ کنکھجورا ذرا سی گرمی پا کر نکل آتا ہے۔
یہ درست ہے کہ فلسفیانہ مسائل مثلاً روح الاما دے کا ربط تبدیل قالب کے واقعات، حقیقت مطلقہ کی تلاش ان سب کا بیان سرسری ہوتا ہے لیکن جہاں تصرف کا ہے وہاں نہایت گہرائی کے ساتھ مراحل عشق کا بیان ملتا ہے۔ سب رس، تو ہے ہی، باغ و بہار میں تصور توسل ملتا ہے بغیر توسل کے مشکل کشائی ممکن نہیں اور یہ وسیلہ مشکل کشا کا ہے جس کے بغیر کوئی منزَ مراد تک نہیں پہونچتا۔ راہ عشق کے سالک جب ہلاکت میں گھر جاتے ہیں تو مشکل کشا ہی ان کی رہنمائی کرتے ہیں ۔
ان داستانوں میں اپنے ملک کی تہذیبی اقدار تو ملتی ہی ہیں کھانے کی تفصیل، زیورات کی تفصیل، پشدلی کی تفصیل وغیرہ بھی ہیں اور دوسرے ممالک کے بارے میں بھی اہم معلومات حاصل ہوتی ہیں ۔ باغ و بہار میں آذر بائجانی نوجوان کی سرگذشت میں درج ہے کہ جب اس کی بیوی مر گئی تو عورتیں برہنہ ہو کر اس کے سامنے آئیں اور اسے اور اس کی مردہ بیویوں کو کھانے پینے کے سامان کے ساتھ قبرستان نما شئے میں بھیج دیا گیا۔ ابن بطوطہ نے ۱۳۲۴ھ میں اپنے سفر نامہ میں چین اور سوڈان کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہاں مردے کے ساتھ زندہ کو بھی کھانا پانی دے کر بھیج دیتے تھے۔ یہ زندہ کو بھی مردہ بنانے کی ترکیب تھی۔ سوڈانی میں بھی عورتیں اسی طرح برہنہ ہو جاتا کرتی تھیں جیسے باغ و بہار میں نظر آتی ہیں ۔
داستانوں کی تحقیق دیتا کے حکیم قسطاس پروفیسر گیان چند سے تسامح ہوا جب انہوں نے لکھا کہ داستانوں میں صرف امراء اور جاگیرداروں کے کردار ملتے ہیں ۔ اس میں بہے لئے، چڑی مار، بونٹ اکھاڑنے والے ، کلدل، فلوارنین، سنکرنیں ، داوم مراثی، بھگتے، خیاط غرض کہ ہر پیشے کا فرد ملتا ہے۔ اور حیرت ہوئی ہے جب وہ جادوگروں کا مرکز و محور لونا چارتی دکھائی دیتی ہے، اس دور میں جب پسماندہ اقدام کی سطح بلند کرنے کی بات ہو رہی ہے۔ ہماری داستانوں میں جب کسی جادو گر پر برا وقت پڑتا تھا تو وہ ابگاری دے کر اس طرح لونا چاری کو بلاتا تھا۔
ارمل، خرمل، بنتا میتا، لوٹک لوٹا، جھٹک جھوٹا بلاؤ لوٹا حجاری کو۔ جادوگری کی دنیا میں ۔۔۔۔۔۔ صرف طلسم ہوشربا میں تک محدود نہیں ہے۔
بہت سارے گوشے ترک کرتے ہوئے ایک آخری پہلو پیش کرنا ہے کہ لکھنؤ پر لکھی گئی داستانوں پر عزیز احمد اور حسن عسکری نے بہت ہی پھوہڑپن سے طوائفیت کے معاشرے کا الزام لگایا ہے۔ لکھنوی داستانوں میں سب سے اہم طلسم ہو شربا ہے اس میں کوئی عورت بھی نہ بدکار ہے اور نہ بد چلن، نہ آوارہ نہ فلرٹ کرنے والی۔ یہ سب جہاں عشق کرتی ہیں اور اپنے محبوب کے لئے اپنی جان تک دینے پر آمادہ ہیں وہیں ان میں ہندوستان کی راجپوت خواتین اور بیگم حضرت محل، اہلیا بائی، چاند بی بی، حیات بخشی بیگم، مخدومہ، جہاں کی طرح بہترین انتظامی صلاحیت بھی ہے اور اپنے ماحول کے فن سپ گری سے یہ واقف و باخبر ہی نہیں ماہر بھی ہیں ۔ انہوں نے اپنے اپنے نام کی مناسبت سے عناصر کی تسخیر کی ہے۔ ملکہ بہار رنگ و بو کا پیکر ہے۔ اسی کی تسخیر کی ہے۔ لاکھوں سے لڑتی ہے۔ ملکہ براں کا احترام وارید کون فراموش کر سکتا ہے۔ ملکہ مجلس گڑیوں سے سحر کرتی ہے۔ برق الامع کڑک کر گرتی ہے۔ مخدوم مدہوش کر دیتی ہے یا ان زمین کن زمین کے طبقات کو توڑتی ہوئی نکلتی ہے یہی نہیں افراد سیاب کی زوجہ ملکہ حیرت وہ بھی مضبوط کردار کی ہے۔ باغ و بہار کی شہزادی و عشق کے شربت ورق اطیال استعمال کرنے پر تمام داستانوں کی عورتوں پر عیاشی کا لیبل لگا دینا محض ادبی بد دیانتی ہے۔جو معاشرہ پیش کیا گیا ہے وہ متوازن ہے۔ آج ہم عورتوں کے حقوق کے تحفظ اور ان کو سماج میں برابر کا درجہ دینے کی بات کر رہے ہیں ۔ انیسویں صدی کے معاشرے میں ہمارے داستان گو اس معاشرے کا خواب دیکھ چکے تھے۔
داستانوں میں تہذیبی وراثت ایک نسل سے دوسری نسل تک منتقل ہوتی ہے۔ داستان نے ہماری تہذیب کے روش نقوش کو تسلسل عطا کیا ہے ان فصلوں کے پیچھے ہمارا سیاسی انحطاط، ہمارا نفسیاتی اضمحلال بھی چھا ہوا ہے اور ہمارے تاریخی پس منظر کا وہ کرب بھی جسے ہمارا تخلیق کار محسوس کر رہا ہے۔ یہ کہا جاتا ہے کہ تاریخ میں سنینن کے علاوہ سب غلط ہوتا ہے لیکن قصہ میں تاریخ کا دل دھڑکتا ہے اس میں سنیسن نہیں ہوتے زمانے کے ساتھ دل کی دھڑکنیں ہوتی ہیں اسی لئے کوئی بھی مذہب ہو۔ یہاں تک کہ دور حاضر کے غیر مذہبی تصورات کا نظریہ ہو۔ سب کی بنیاد میں قصہ ہے۔ یہ قصہ نہ ہو تو حیات سچ مچ دیوانے کا خواب ہو جائے قصہ گوئی کے اس فن میں ن اول اگر ادبی دنیا کا سفر ہے تو داستاں ادبی دنیا کا افضل، سفر میں منزل کی جہت و سخت تعین ہوتی ہے ۔ مگر اس میں بے خودی اور شرمساری و م د ہوش کن کیفیت نہیں ہوتی۔ لیکن رقص میں بس دائرہ ہوتا ہے۔ کب رقص تھم جائے گا نہیں معلوم، گھنگھروؤں کی جھنکار، سرشاری اور نشے میں ہوش کی کیفیت پیدا کرتی رہتی ہے رقص کا ہر بھاؤ کچھ نہ کچھ ضرور کہتا ہے۔ اس کے پس منظر میں کوئی نہ کوئی قدر ضرور ہوتی ہے داستاں بھی رقص ہے۔ اس کے اسلوب کے گھنگھروؤں کی جھنکار بھی محویت پیدا کرتی ہے ایک کیفیت سے سرشار کرتی ہے۔ لیکن جس طرح آپ رقص میں بھاؤ دیکھتے ہیں اسی طرح داستاں پڑھتے وقت اس کے بھاؤ یعنی اس کے پیچھے چھپے ہوئے تصورات کو بھی فراموش نہ کیجئے۔
شمس الرحمن فاروق لکھتے ہیں ۔
’’داستاں کا مطالعہ اس لئے ضروری ہے کہ یہ ہماری تہذیبی میراث اور ادبی میراث کا گراں قدر حصہ ہے کیا یہ لحاظ کیفیت، کیا یہ لحاظ کمپت۔ داستاں امیر حمزہ (نولکشوری) کی ۴۶جلدیں جو تقریباً ۵۰ ہزار صفحات پر مشتمل ہیں دنیاں کے داستانی ادب اور نشری ادب میں ممتاز مقام کی مستحق ہیں ۔ داستان کا مطالعہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ اس کے بغیر بیانیہ کی کوئی قابل ذکر تھیوری مرتب نہیں ہوسکتی۔ بیانیہ کے بار رسمیں سجائے جو خیالات ہیں وہ مغربی نظریات کے اس حصہ سے ماخوذ ہیں جن کا تعلق ناول کے نظریات سے ہے بھی ان نظریات سے جن کا تعلق ہنرمی جمیز اور پھر سی لیوپک کی تحریریں ہیں ظاہر کہ اپنے مختصر سرمائے سے کوئی سیر حاصل نظر یہ نہیں ہوسکتا۔
داستاں کا مطالعہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ اردو کا جدید فکشن آج جس Dilemma گرفتار ہے اس سے نجات کا ایک راستہ بیانیہ کی وہ سکلین ہیں اور وہ امکانات ہیں جن کا پتہ داستاں سے لگتا ہے داستاں صرف اس چیز کا نام نہیں جس میں ’’اے عزیز’‘ اور پھر وہ گویا ہوا ’’پہلے وہ رویا پھر ہنسا’‘ وغیرہ اور مختلف Archaic فقرے سے استعمال ہوتے ہیں داستاں کی چوری شعریات ہے اور اس سے واقفیت ضروری ہے۔
داستانوں کے مطالعہ کے لئے فاروقی کے پیش کر دہ یہ پہلو بہت اہم ہیں اسی کے ساتھ داستانوں نے یہ بھی بتایا ہے کہ صرف جمالیات ہی زندگی نہیں ہے بلکہ جمالیات کی بھی اخلاقیات ہوتی ہے اور اگر اخلاقیات میں جمالیات نہ ہوتی تو پھر وہ لاحاصل گفتگو بن جاتی۔
اس طرح داستانیں اخلاقی جمالیات کا اور جمالیاتی اخلاقی کا تصور پیش کرتی ہیں ۔

****



No comments:

Post a Comment