تحقیق، صداقت کا اظہار و اعلان ہے، گفتار صدق مایہ آزار ہوتی ہے اور حرف حق کا بلند ہونا منزَ وار سے گزرنے کے مترادف ہے اور اس منزل سے گزرتے ہوئے سب سے بڑا خطرہ کسی دوسرے سے نہیں خود اپنی ذات سے ہوتا ہے ۔مزعومات، تشکیک، احساس تفرق، اپنی شخصیت کے حصار میں گم رہنے کی پرانی عادت، ہر لمحہ انانیت کی فریب خوردگی، یہ سب ایسے پہلو ہیں جو اظہار و اعلان صداقت کی راہ کے سنگ گراں ہیں ۔ ان اصنام کی بت شکنی کے بعد ہی نگاہ تحقیق صداقت کو بے حجاب دیکھتی ہے۔
تحقیق کا ہی بے حد اہم ذیلی رخ تدوین متن ہے اور یہ سب سے مشکل مرحلہ ہے۔ گیان چند نے تدوین متن کو ’’سیمیا کی سی نمود’‘ کہا ہے اور یہ درست ہے کہ ہر لمحہ مختلف روپ بہروپ فریب نظر کا شکار بناتے ہیں ۔ ایک رخ تو یہ ہوتا ہے کہ اگر متن پہلے مرتب کیا جا چکا ہے اور مجموعہ اغلاط ہے تو اس کی تصحیح میں آبگینوں کو ٹھیس لگنے کا خطرہ ہے اور اگر متن پہلی بار مرتب کیا جا رہا ہے تو مرتب متن سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ بہت سارے ’’واقعات کی فردوس گم شدہ’‘ کی ضرور سیر کرائے گا۔ چاہے یہ واقعات شداد کی جنت ہی کیوں نہ ہوں ۔ حالانکہ مرتب متین کی بنیادی ذمہ داری منشائے مصنف کے مطابق متن پیش کرنا ہے۔ مفروضہ واقعات کی بہشت کی تخلیق نہیں ۔!
متن کی ترتیب میں سب سے مشکل مرحلہ اس وقت آتا ہے جب مرتب کو اپنی بیش بہا معلومات کے اظہار پر پابندی عائد کرنا پڑتی ہے۔ دراصل تحقیق ریاضت کے ساتھ ضبط نفس کا بھی مطالبہ کرتی ہے اور جب تک متعین دائرے میں کام نہیں کیا جاتا غیر ضروری معلومات نقصان دہ ثابت ہوتی ہیں اور طالب علم کو گوہر مراد تو نہیں ملتا۔ صحرا نوردی البتہ ہاتھ آتی ہے۔
رشید حسن خاں اردو تحقیق کی آبرو ہیں ۔ اپنی عمر عزیز کے بہترین زمانے کو انہوں نے تحقیق کے ناشکرے کام میں صرف کیا ہے۔ تحقیق میں انہوں نے اس دور بلا خیز میں کاندھے پر سچ اور صرف سچ کا پرچم رکھا اور سچ ہی لکھا۔ کچھ عرصہ قبل انہوں نے اشعار کے صحیح انتساب اور صحیح قرأت پر زور دیا تھا اور بتایا تھا کہ ’’سرہانے میر کے آہستہ بولو’‘ میں ’’آہستہ بولو’‘ غلط اور صحیح مصرعہ ہے
سرہانے میر کے کوئی نہ بو لو
اس طرح بہت سارے اشعار کا صحیح متن درج کر کے اس طرف متوجہ کیا تھا کہ متن وہ نہیں ہوتا جو ہمیں اچھا معلوم ہوتا ہے بلکہ متن وہ ہوتا ہے جو مصنف نے پیش کیا ہو انہوں نے بار بار اس پہلو کی طرف متوجہ کیا۔ سودا کا انتخاب ہو یا ’’فسانہ عجائب’‘ یا دوسری کتابیں جنہیں انہوں نے مرتب کیا ان سب میں ان کی فکر کا ایک ہی مرکز اور محور ہے۔
سچ! سچ! سچ!
اب یہ اور بات ہے کہ دانش گاہوں میں جو ادبی مہنت بیٹھے ہیں ۔ انہیں اس کی توفیق نہیں ہوتی کہ صحیح متن ہی پڑھ لیا کرتے اور اگر کسی نے پڑھ لیا تھا تو یاد بھی رکھتا اور اگر یاد رکھا تھا تو صداقت کی خاطر طالب علموں کو یہ بھی بتا دیتا کہ جس متن کو پڑھ ہا ہے وہ غلط ہے اور اگر درست ہے تو رشید حسن خاں کا فیضان ہے۔
انہوں نے بہت لکھا ہے۔ بالخصوص وہ تدوین متن کے سلسلے میں مثالی حیثیت کے مالک ہیں اور اپنے کارناموں سے انہوں نے عملی تحقیق کی اعلیٰ ترین روایت کی تشکیل کی ہے۔
’’باغ و بہار’‘ کی تدوین بلاشبہ ان کی تحقیقی غزل میں بیت الغزل ہے۔
’’باغ و بہار’‘ اسم بامسمیٰ ہے۔ اسے کسی طرح کی خزاں کا ڈر نہیں تقریباً دو صدی سے ہرج مرج کھینچتے ہوئے یہ خزاں ناآشنا داستان معجز بیان اکیسویں صدی کے دروازے پر دستک دے رہی ہے یہ داستان اردو نثر میں وہی درجہ رکھتی ہے جو غزل میں میر تقی میر یا مرثیہ میں میر انیس کا ہے۔ اس کا ڈرامائی انداز بیان، متصوفانہ پہلو اور اس کا تہذیبی رخ یادگار حیثیت کا مالک ہے۔ میر امن کا مقدمہ بھی اس اعتبار سے بہت اہم ہے کہ تاریخی اور تہذیبی پس منظر میں اردو زبان کے آغاز کا نظریہ پہلی بار پیش کیا گیا ہے اور پھر اس میں الفاظ کا سحر حلال تو ایسا ہے کہ جب تک گنگا جمنا میں روانی ہے اس کا اثر کم نہ ہو گا۔ جرمن فلسفی نے بیسویں صدی میں یہ بتایا کہ لفظ کے معنی نہیں ہوتے بلکہ لفظ اپنے محل استعمال سے معنی دیتا ہے۔ میر امن نے بہت پہلے الفاظ کے استعمال سے عملی طور پر یہ بات سمجھا دی۔ ان کے پاس الفاظ نہیں ہیں بلکہ کسی مصور کے سامنے بکھرے ہوئے بے شمار رنگ ہیں ۔ جہاں جس طرح کا رنگ ضروری ہے اسے وہاں لگا کر تصویر کے نقوش ابھار دیتے ہیں ۔
’’باغ و بہار’‘ پہلے بھی مرتب ہوتی رہی ہے۔ مختلف لوگوں نے اسے مرتب کیا ہے لیکن حق یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا تھا کسی کا نقطہ نظر ماخذ کی بحث ہے۔ کسی کے مقدمے نے نسوانی کرداروں پر بڑی اچھی روشنی ڈالی ہے۔ کوئی معاشرتی اور تہذیبی پہلو کو اجاگر کرتے ہوئے ہندوستان کی تاریخ اور ادبی سماجیات پر گہر افشانی کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ لیکن مقدمہ متن کے اسرار و غوامض پر بہت کم روشنی ڈالتا ہے۔ اس کا مختلف نسخوں سے تقابلی مطالعہ کسی نسخہ کے مرجح ہونے کی دلیل، لسانی پہلو اور فرہنگ، الفاظ کی تشریحات، اس عہد کی لسانیات اور وہ بہت سارے گوشے سامنے نہیں آتے جہاں ایک ایک لفظ کے پس منظر میں جہان معنی آباد ہے۔
رشید حسن خاں نے اس ترتیب سے نہ صرف ایک اہم ضرورت کی تکمیل کی ہے اور باغ و بہار سے صحیح معنوں میں روشناس کرایا ہے بلکہ تدوین متن کی دنیا میں عملی تحقیق کی بڑی اچھی مثال قائم کرتے ہوئے انہوں نے اپنے تحقیقی نقطہ نظر کی بھی جگہ جگہ وضاحت کی ہے لکھتے ہیں :
’’اصول تحقیق پر ایمان نے بے ایمانی کی پیدا کی ہوئی قناعت پسندی کو ذہن پر اثر نہیں ڈالنے دیا اور نشاط کار کا ایسا احساس کبھی ذہن پر حاری نہیں ہوسکا جس سے ہوس کے تقاضوں کو آب و رنگ ملتا ‘۔ ۱)
مرتب متن کی ذمہ داریوں کی طرف متوجہ کرنے کا بہت خوبصورت انداز ملتا ہے لکھتے ہیں :
’’اس اعتبار سے ہر لفظ کا تعین، مرتب کی ذمہ داری میں شامل ہے۔ لفظ مجموعہ ہوتا ہے حرفوں کا یوں یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہر حرف کا تعین اس کی ذمہ داری میں شامل ہے۔ اس لحاظ سے دیکھئے تو معلوم ہو گا کہ الفاظ کے تعین اور ان کی صورت نگاری کی، صحت متن میں اصل حیثیت ہوتی ہے‘۔ ۲)
وہ ان تمام دشواریوں اور مسائل سے باخبر ہیں جو اختلاف نسخ اور تقابلی مطالعہ کی صورت میں پیش آتے ہیں لکھتے ہیں :
’’کسی کتاب کے مختلف اہم نسخوں کو (اگر وہ موجود ہوں ) سامنے رکھنا از بس ضروری بلکہ لازم ہے، جب بھی مختلف نسخوں کو پیش نظر رکھ کر عبارت کی تصحیح کی جائے گی تو بہت سے مسائل پیدا ہوں گے۔ یوں یہ ضروری ہو گا کہ حواشی میں ایسے ہر لفظ سے متعلق ضروری تفصیلات درج کی جائیں جو کسی بھی لحاظ سے وضاحت طلب ہوں ۔ خواہ بہ لحاظ معنی مطلب، خواہ بہ لحاظ املا اور خواہ بہ لحاظ قواعد۔ بہت سے جملوں کی ترتیب اور معنویت بھی تشریح کی محتاج نظر آئے گی۔ حواشی میں ایسی تشریحات کا شامل کرنا بھی ضروری قرار پائے گا۔
ایسے مفصل حواشی کی ضرورت ایک اور وجہ سے بھی ہوتی ہے۔ زمانے گزرنے کے ساتھ بہت سے لفظ متروک ہو جاتے ہیں یا ان کی شکل و صورت میں کسی طرح کی تبدیلی راہ پا لیتی ہے۔’‘ ۳)
انہیں اس بات کا احساس ہے کہ محقق کے لئے تنقیدی بصیرت ناگزیر ہے اور نقاد تحقیق کے بغیر ایک قدم بھی نہیں چل سکتا۔ لیکن وہ اس سے بھی باخبر ہیں کہ کوئی متن مدون ہو جانے کے بعد تنقیدی مباحث کے دروازے کھولتا ہے۔ تدوین کے مرحلے میں تنقیدی بحث غیر ضروری ہے۔ عمارت کی تعمیر کے بعد ہی اس کی تزئین اور آرائش کی فکر مناسب ہوتی ہے۔ تعمیر کے مرحلے میں اگر یہ بحث شروع ہو جائے کہ تصاویر نشست گاہ میں آویزاں کی جائیں یا خواب گاہ میں تو یقیناً یہ مضحکہ خیز ہو گا۔ یہی حال مرحلہ تحقیق میں تنقیدی مباحث کا ہے۔ بڑی تفصیل کے ساتھ انہوں نے روشنی ڈالی ہے۔ وہ لکھتے ہیں :
’’متن کی تصحیح اور متعلقات متن کی کماحقہ ترتیب کے لئے یہ بھی ضروری سمجھا گیا کہ مفصل تنقیدی اور تدوین دو الگ موضوع ہیں ۔ متضاد تو نہیں لیکن مختلف ضرور ہیں ‘۔ ۴)
آگے چل کر وہ مزید وضاحت کرتے ہیں :
’’مقدمہ کتاب میں طویل تنقیدی مباحث کو شامل کرنے سے یہ نقصان ضرور ہوتا ہے کہ دونوں کا حق ادا نہیں ہو پاتا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ متعلقات متن کی ضروری تفصیلات زیر بحث نہیں آ پاتیں ۔ مرتب کا اصل کام یہ ہے کہ وہ متن کو صحیح طور پر پیش کرے اور اس متن سے متعلق بحثوں کو مناسب تفصیل کے ساتھ لکھے جس میں قابل ذکر حصہ لسانی مباحث کا ہو گا، اس کے فرائض میں یہ شامل نہیں کہ وہ تنقیدی رائے بھی دے، اسی لئے یہ ضروری سمجھا گیا کہ اس سلسلے میں زیر ترتیب کتابوں کے مقدمے میں مفصل تنقیدی مباحث کو شامل نہ کیا جائے‘۔ ۵)
انہوں نے ہر جگہ تدوین متن کے اصولوں کی پابندی کی ہے اور یہ پابندی شعوری ہے روایتی نہیں ۔ اس لئے کہ انہوں نے جگہ جگہ اس کی طرف اشارے بھی کئے ہیں ۔ ان میں تنقیدی شعور ہے لیکن اصولوں کی پاسداری نے انہیں ایک قدم بھی تجاویز کرنے نہیں دیا ہے حالانکہ ان کا تنقیدی شعور اعلیٰ درجہ کا ہے ملاحظہ ہو :
’’میر امن کی نثر میں جو حُسن، طاقت اور چھا جانے والی کیفیت ہے، اس میں ان کے زمانے کا کوئی شخص شریک نظر نہیں آتا۔ یہی وجہ ہے کہ باغ و بہار کو جدید اردو نثر کا پہلا صحیفہ کہا گیا ہے۔ اس کتاب نے ایک نئے طاقتور اسلوب کی بنیاد ڈالی جو معیار ساز ثابت ہوا۔ باقی سب کی نثریں خوب ہیں ۔ مشکل پسندی سے محفوظ ہیں ، ا اسان ہیں مگر ان میں وہ طاقت نہیں کہ ایک نئے اسلوب کی تشکیل ہوسکے اور ایک نئے پیرایہ اظہار کے خط (کذا) د خال ۶) روشن ہوسکیں نئی روایت کی تشکیل ہر شخص کے بس کی بات نہیں ہوتی۔ کالج کے کسی اور مصنف میں یہ جرأت اور ہمت نظر نہیں آتی۔’‘ ۷)
انہوں نے تحقیق میں ایجاد بندہ قسم کے بہت سارے التباسات کو دلائل کے ساتھ رد کیا ہے۔ تحقیق کی ایک قسم ’’خواہ مخواہی تحقیق‘‘‘ بھی ہوتی ہے۔ اس کا بہت اچھا نمونہ میر امن کی تاریخ ولادت اور تاریخ وفات کے سلسلے میں نظر آتا ہے۔ نصر اللہ خاں خورجوی اور انتظام اللہ شہابی کے سلسلے میں جو بہت سارے گوشے بغیر کسی دلیل کے سامنے آ گئے تھے اس پر مدلل بحث کرتے ہوئے اسے رد کیا گیا ہے۔ ۸)
البتہ پوری بحث پڑھنے کے بعد طالب علم کا دل یہ چاہتا ہے کہ کاش اس کی بھی تحقیق ہو گئی ہوتی کہ تاریخ ولادت و وفات کیا تھی۔ میر امن کے وطن، علاقہ اور جاگیر و منصب کے عنادین کے تحت بڑی اچھی بحث کی گئی ہے۔ خصوصاً میر امن کے اب و جد کی جاگیر کے علاقہ کا تعین بہت اہم دریافت ہے۔ انہوں نے مختلف نسخوں اور اشاعتوں کا تقابل بھی کیا ہے اور ہندی مینول کے بارے میں بے حد اہم معلومات اکٹھا کی ہیں اور اس سلسلے میں معلومات کا بیش بہا خزانہ ہاتھ آتا ہے۔ ص ۸۳ سے ص ۱۰۶ تک انہوں نے اعراب رموز و اوقاف ، حروف کی صوتیات اور بعض الفاظ کے بارے میں نتیجہ خیز مدلل بحث کی ہے۔ یہ دریافت بھی بہت اہم ہے کہ شیر علی افسوس نے نثر بے نظیر، قصہ گل بکاولی، مادھونل، طوطا کہانی، قصہ حاتم طائی کو واجبی واجبی درست کیا ہے، لیکن قصہ چہار درویش کا تو ’’محاورے میں اکثر درست عبارت نہایت چست تھی، یہ کہیں کہیں جملے بے ربط تھے سو مربوط کر دئیے ۹)
انہوں نے میر امن کے اسلوب کی خصوصیات میں الفاظ کی تکرار، توابع کا استعمال، صناعی، قافیہ بندی کی تفصیلات دی ہیں ۔ اس کے ساتھ میر امن کے یاں ’’نے’‘ اور ’’کو’‘ کے استعمال اور اسے ترک کرنے کی مثالیں بھی دی ہیں ۔ کرکر، کی، کرکراہٹ کا بھی ذکر کیا ہے۔ تذکیر و تانیث، شتر گربہ وغیرہ کے بیان سے ان کے تنقیدی نقطہ نظر کی وضاحت بھی ہوتی ہے اور ان کی تنقیدی بصیرت کا بھی اندازہ ہوتا ہے اور پھر اس پر حیرت ہوتی ہے کہ کتنے ظرف کے ساتھ انہوں نے اپنے اوپر عائد کر دہ احتساب کی پابندی کی ہے حسن سے گریز احساس کمتری کا نتیجہ ہوتا ہے لیکن شعور و ارادہ کے ساتھ ہو تو پھر اسے شان یوسفی و پیغمبری کہا جاتا ہے۔
تنقیدی مباحث سے ان کا گریز شان یوسفی ہی ہے ۔ !
مقدمہ کے بعد متن ہے۔ وہ ص ۲۵۰ پر ختم ہوتا ہے اس کے بعد ضمیمہ ہے۔ ضمیمہ میں ایک ایک لفظ کی مدلل اور خوش سلیقگی کے ساتھ بحث ملتی ہے۔ ان کی دیدہ ریزی، باریک بینی اور تبحر علمی کا قائل ہونا پڑتا ہے۔ کچھ مثالیں ملاحظہ ہوں :
عیسوی سال کے سلسلے میں (سال عیسوی) کے بارے میں لکھتے ہیں :
’’اس عبارت میں لفظ سال اصنافت کے بغیر ہی مرجح ہے‘۔ ۱۰)
پوری تحقیق کے ساتھ دلائل سے یہ ثابت کیا ہے کہ سال کے نیچے اصنافت مناسب نہیں ہے۔ ۱۱)
ایک جگہ لکھتے ہیں :
’’میر امن کی نثر میں ایسے بہت سے جملے ملتے ہیں جن کا انداز آج بالکل اجنبی معلوم ہوتا ہے اور عام آدمی یہ خیال کر سکتا ہے کہ یہاں شاید کسی طرح کی غلطی راہ پا گئی ہے ۔ چوں کہ ایسے جملوں کی تعداد کم نہیں ہے اس لئے یہ بات تقاضائے احتیاط کے بالکل خلاف ہے (اصول تدوین کے بھی خلاف ہو گی) کہ ایسے مقام پر کسی طرح کی بھی تبدیلی کو روا رکھا جائے۔’‘ ۱۲)
آگے چل کر لکھتے ہیں :
’’وہ مقامات جہاں احتمال کی گنجائش نکلتی ہو، میں نے خاص طور پر خیال رکھا ہے کہ ایسے مقامات پر کسی طرح کی دخل اندازی نہ کی جائے۔ ۔ ۔ جب تک اس کا یقین نہ ہو جائے کہ فلاں مقام پر لازماً غلطی کتابت ہو یا غلطی طباعت ہے تب تک عبارت میں دخل نہیں دینا چاہئے اور تصحیح سے کام نہیں لینا چاہئے کیونکہ ایسی تصحیحات کو بہ آسانی تصرف کہا جاسکتا ہے۔ البتہ پڑھنے والوں کی معلومات کے لئے ایسے بھی مقامات پر وضاحتی نوٹ ضرور لکھتے ہیں ۔’‘ ۱۳)
انہوں نے تاریخ کے سلسلے میں بھی اس بات کا خیال رکھا ہے کہ کوئی دعویٰ بغیر دلیل کے نہ ہو۔ ص ۳۶۸ سے ص ۲۷۱ تک علی مرداں خاص کی نہر کا تذکرہ ہے اور یہ تذکرہ علم کی نہر علقمہ نہیں معلومات کی گنگا ہے حوالے ، تفصیلات، استدلال، غرض کہ کوئی گوشہ ایسا نہیں ہے جو نظر انداز کیا گیا ہو اور یہ انداز صرف نہر یا عمارتوں کے سلسلے میں نہیں ہے زندگی کا ایک اہم جز و طعام ہے۔ انہوں نے اس پر بھی میر امن کی طرح پوری توجہ دی ہے۔ ’’قلیہ’‘ کی بحث پڑھتے ہوئے منھ میں پانی بھر آتا ہے اور ہونٹوں پر زبان پھرانے کو بھی جی چاہت ہے۔ یہ عالمانہ بحث عرب سے ایران تک چلی آتی ہے۔
تلفظ و املا کی بحث کے سلسلے میں راقم الحروف کو اس کا احساس ہے کہ اس کے پاس توصیفی الفاظ بہت کم ہیں بہرحال جتنے الفاظ بھی ہیں وہ ان کی نذر ہیں ۔ محاورہ عام کیا تھا؟ اصل لفظ کیا تھا۔ ؟ لفظ کس طرح مسترد کیا گیا۔؟ تذکیر و تانیث کی کیا صورتیں ہیں ؟ محل استعمال کیا ہے؟ مختلف علاقوں میں کسی لفظ کی قرأت کیا ہے؟ ادائیگی کس طرح ہوتی ہے؟ یہ ساری تفصیلات بڑی جامعیت سے ملتی ہیں ۔ باقر اور باقر کی بحث پر نظر پڑی تو وسعت علم کے ساتھ فاضل مرتب کی حاضر دماغی اور ہر رخ سے مسائل کو پرکھنے کی لاجواب عادت نے بے اختیار ان کے لئے توصیفی کلمات صرف کروائے کوئی علامہ لسانیات قطب مینار جیسی شخصیت اور گنبدان قطب شاہی جیسی دستار فضیلت سر پر رکھنے کے باوجود اس جگہ پہونچ کر عجز سے سرنیاز خم کرنے پر مجبور ہے۔
اس سلسلے میں چھپا، چھپا۔ جمعہ جمعرات، گزری، گزرا کی بحثیں صفحہ ۴۴۶، ۴۶۰ اور ۵۵۷ پر دیکھی جاسکتی ہیں ۔
فاضلانہ انداز، عالمانہ شان اور محقق کا وقار اس کتاب میں ہر جگہ نظر آتا ہے۔ کسی سے ایک لفظ کا بھی استفادہ ہے تو اس کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ کھرے علم کی پہلی شرط ایمانداری ہے کچھ مثالیں ملاحظہ ہوں ۔
لکھتے ہیں :
’’بہرحال تقدم کا شرف مصنفہ ڈاکٹر عبیدہ بیگم کو حاصل ہے’‘ ۱۴)
یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ڈاکٹر نفیس ۱۵) جہاں نے باغ و بہار پر تحقیقی مقالہ پیش کیا ہے۔ انہوں نے شاکر ناجی کے دیوان کی مرتبہ محترمہ ۱۶) افتخار بیگم صدیقی صاحبہ کا بھی تذکرہ کیا ہے اور ڈاکٹر جمیلہ جعفری صاحبہ کا بھی حوالہ دیا ہے۔ ان معزز اور محترم خواتین کے کارناموں سے راقم الحروف اپنی کم علمی کے سبب متعارف نہ تھا۔ عموماً ایسے لوگوں کا تذکرہ اس لئے نظرانداز کر دیا جاتا ہے کہ اس سے اپنی اہمیت کچھ کم ہوتی ہوئی نظر آتی ہے۔ علم کی ایک شان انکسار ہے اور اسے شخصیت کا ایک جزو بننا چاہئے اس کے لئے دیانت، وسیع النظری اور ضبط و نظم نیز تحمل جیسی صفات ناگزیر ہیں ۔ رشید حسن خاں ان تمام صفات سے متصف ہیں ۔
انہوں نے جس سے بھی استفادہ کیا ہے اس کا حوالہ دیا ہے اور جس موضوع پر جس کا پایہ استناد مستحکم ہے اس سے ہی رجوع ہوئے ہیں ۔ اس کی ایک مثال ملاحظہ ہو۔ لکھتے ہیں :
’’ویزلی کو بہ سکون زا بھی سنا گیا اور اس طرح بھی سنا گیا کہ ’’ز’‘ قصر خفیف کے ساتھ تلفظ میں آتی ہے۔ میں نے اول الذکر کو ترجیح دی اور اس سلسلے میں جناب شمس الرحمان فاروقی کی تحریر پر اعتماد کیا ہے۔’‘ ۱۸)
یہ بہت بڑی بات ہے اور اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ دیانت و متسانت علمی کسے کہتے ہیں ۔ وہ اگر چاہتے تو سینکڑوں باتیں اس طرح لکھ سکتے تھے جیسے یہ سب کچھ انہیں کی دریافت ہے لیکن جس وسیع القلبی اور حزم و احتیاط کے ساتھ انہوں نے ہر بحث کے سلسلے میں مستند افراد سے مشورہ کیا ہے وہ ہر طالب علم کو کبھی کبھی مبہوت و متحیر کر دیتا ہے۔ انہوں نے ابتداء میں ہی گیان چند کا حوالہ دیتے ہوئے ساری تفصیلات درج کی ہیں اور یہاں تک کہ محمد غوث زریں (صحیح) محمد عوض (غلط) کا تذکرہ کرتے ہوئے انہوں نے گیان چند کا حوالہ دیا ہے گیان چند نے ڈاکٹر رحمت یوسف زئی کے ذریعہ داستان چہل وزیر کا تذکرہ کیا تھا۔ یہ ممکن تھا کہ ڈاکٹر رحمت یوسف زئی کا نام نظرانداز کر دیا جاتا مگر وہ عملی دیانت کے خلاف ہوتا، اس لئے یہ تذکرہ بھی موجود ہے۔ ۱۹)
اگر یہ کہا جائے کہ تدوین متن کا یہ کارنامہ مثالی ہے تو غلط نہ ہو گا۔ انسانی ذہن متن کے سلسلے میں جتنی متعلق اور ضروری باتیں سوچ سکتا ہے وہ سب اس میں موجود ہیں لیکن اس خوف سے کہ اس کارنامہ کو فوق البشر کا کارنامہ نہ سمجھا جائے اور اس خیال سے بھی کہ ہر حُسن مجسم کو کالا تاگا باندھ دینا چاہئے کہ نظر نہ لگے، کچھ گوشوں کی طرف متوجہ کیا جا رہا ہے حالاں کہ یہ عمل ایسی ہی ہے جیسے گلستاں میں کانٹوں کی تلاش یا بدر کامل میں دھبے کی نشاندہی۔! بہرحال اس کا حرف آغاز محترم ڈاکٹر خلیق انجم صاحب نے لکھا ہے۔ حرف آغاز کے بعد مقدمہ شروع ہوتا ہے ص ۱۶ اور ص ۱۷ پر صدیق الرحمن قدوائی اور دلوی صاحب کے بھائی کا تذکر ہ ایک صفحہ کے بجائے تین چار سطروں میں ہوسکتا تھا۔ یہ تطویل ناگوار معلوم ہوتی ہے۔ خصوصاً جاگیردار اشرافیہ پر ’’طنز مسور‘۔
میر امن کے سلسلے میں کہ ان کا نام میسرا مان تھا یا نہیں تذکرہ شعرائے ہند کا بھی حوالہ دیا گیا ہے۔ یہ تذکرہ ۱۸۴۸ء میں مرتب ہوا تھا۔ میر امن اور کریم الدین کے درمیان بعد زمانی بہت کم ہے اور کریم الدین کے بیان پر اعتماد کیا جاسکتا ہے۔ اگر غور کیا جائے تو بظاہر ۴۳سال کا فاصلہ اور بھی کم ہو جائے گا۔ اس لئے کریم الدین کے بیا ن کو سرسری طور پر نظرانداز نہیں کرنا چاہئے۔ یہ مفروضہ نہیں بلکہ قرینہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کا تخلص امان بھی رہا ہو اور امن بھی اور لطیف بھی یا نام ہی امان رہا ہو۔
میر امن کے مذہب کے سلسلے میں لکھتے ہیں :
’’واضح طور پر یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ شیعہ تھے۔’‘ ۲۰)
لفظ ’’شیعہ’‘ کا اطلاق عام طور پر واقفیہ اور اثنا عشری دونوں پر ہوتا ہے۔ واقفیہ میں وہ لوگ شامل ہیں جنہیں دور حاضر میں سلیمانی، داؤدی، آغا خانی کہا جاتا ہے۔ واقفیہ کا سلسلہ امامت حضرت اسمعیل مکتوم بن حضرت امام جعفر صادق ؑ سے ملتا ہے۔ یہ بھی عرض کرنا ہے کہ کیسانیہ اور زیدی بھی اپنے کو شیعہ کہتے ہیں ۔ میر تقی خیال (صاحب بوستان خیال) بھی شیعہ تھے۔ ان کا مسلک خاطمیوں کا تھا جو آل بویہ کا مسلک تھا۔
احتیاط کا تقاضا یہ تھا کہ میر امن کو شیعہ اثنا عشری لکھا جاتا ہے۔ ایک جگہ حاشیے میں لکھتے ہیں :
’’بیان واقع کے اندراج کی بنیاد پر ابدالی مرجح ہے‘۔ ۲۱)
اس سلسلے میں اگر گنڈا سنگھ کی کتاب ’’احمد شاہ درانی’‘ جو نیویارک پبلشنگ ہاؤس سے ۱۹۶۹ء میں شائع ہوئی، ملاحظہ کر لی جائے تو یقیناً احمد شاہ کے ساتھ درانی کو ہی ترجیح دی جائے گی۔ یہی درست ہے۔ احتشام صاحب مرحوم نے بھی درانی کو ہی ابدالی پر ترجیح دی تھی۔
’’سامھنے’‘ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ’’اب، سامنے’‘ لکھتے ہیں ‘۔ اس سے مترشح ہوتا ہے کہ پہلے سامھنے لکھتے رہے ہوں گے اور سامنے بولتے رہے ہوں گے۔ ۲۲) عابد پیشاوری کا خیال ہے کہ سامھنے بولتے اور لکھتے بھی تھے، بعد کو سامنے ہو گیا۔ ۲۳)
’’جن پاس روزہ کھول کے کھانے کو کچھ نہ ہو‘
اسے رباعی کا مصرعہ لکھا ہے۔ عابد پیشاوری کا خیال ہے کہ یہ رباعی کا مصرعہ نہیں ہے۔ ۲۴)
چڑھواں اڑایا۔ عابد پیشاوری کا خیال ہے کہ اڑایا ۲۵) ہونا چاہئے۔ ان کا خیال ہے کہ ایڑی میں ڈالتے والی بات مشکوک ہے اور اس مناسبت سے اڑایا درست نہیں ہے۔ ۲۶) میں نے (راقم الحروف) اپنے بچپن میں ۴۰۔۴۵ سال قبل اڑانا ہی سنا ہے بہ معنی اٹکا لینا، ڈال لینا، مراد پہننے سے ہو گی۔ فاضل مرتب نے ساری بحث کے بعد اڑانا کو ترجیح دی ہے۔ کراچی کی لغت میں اڑایا چھپا ہے۔ اڑانا اگر کہیں درج ہے تو اسے سہو قرار دینا چاہئے۔
’’رموز و اوقاف کی پابندی کے سلسلے میں ڈیڑھ سطر میں اپنی مرتبہ فانہ عجائب کا تذکرہ کیا ہے کہ اس میں بھی اسی طرح کی رموز و اوقاف کی پابندی کی گئی ہے۔ یہ عبارت حاشیہ میں ہوتی تو زیادہ بہتر تھا۔
ایک جگہ لکھتے ہیں :
’’یہ دروازہ لال بنگلے سے پہلے حضرت فاطمہ سام کے مزار کے آس پاس کہیں تھا۔‘
فاطمہ کے آگے سام دو جگہ اور بھی ہے لیکن گیارہویں سطر میں فرہنگ آصفیہ کے حوالے سے حضرت فاطمہ صائمہ کا تذکرہ ہے۔ یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ سام کیوں لکھا گیا۔ راقم الحروف اس سلسلے میں کوئی معلومات نہیں رکھتا۔ لیکن عقل کہتی ہے کہ جب یہ محترم خاتون کا مزار ہے تو صاحبہ مزار کی کوئی صفت ہونا چاہئے کہ سام تو موت کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ یہودی، سرکار عظیم المرتبت کو سام علیک کہا کرتے تھے البتہ صائمہ صفت ہے یعنی روزے دار۔ اغلب ہے کہ ان کے صائمہ ہونے کی وجہ ان کے وصفی نام کے ساتھ مزار معروف ہو اور فاطمہ صائمہ ہو۔ بہرحال سام اور صائمہ میں سے ایک ہی ہوسکتا ہے دونوں نہیں ۔ ۲۶)
عالی گوہر کا شاہ عالم کے لقب کے ساتھ اپنی بادشاہت کا اعلان ۱۲۰۹ میں درج ہے۔ یہ محل نظر ہے۔ اس سلسلے میں یہ عرض کرنا ہے کہ عرشی صاحب مرحوم کی ہر سطح کی گرد بھی ہم سب کے لئے سرمہ چشم بصیرت ہے۔ لیکن تاریخی واقعات اور اس کے استناد کے لئے ایشوری پرشاد اور رام پرشاد ترپاٹھی کو ترجیح دی جانی چاہئے تھی۔ نادرات شاہی کی ادبی اہمیت ہے تاریخی نہیں ۔ ۲۷)
’’چلتی چکی دیکھ کے رہا کبیرا روئے‘
شعبۂ ہندی بنارس یونیورسٹی کی ریڈر صاحبہ کی یہ اطلاع رام چندر شکل کی مرتبہ کبیر گرنتھاولی پر ہے۔ ہندی کے علماء کبیر کے بہت سے اشعار کے انتساب اور ان کی شخصیت کے زمانی تعین کے سلسلے میں مشکوک و مشتبہ ہیں ۔ اس سلسلے میں اتنی تفصیل کی بھی ضرورت نہیں تھی۔ اتنا لکھ دینا کافی ہوتا کہ کبیر کے نام سے معروف ہے۔
تیسرے درویش کی سیر کے اختتامی حصے میں بہاء الدین برناوی کا مشہور شعراء درج ہے۔
ان نینن کا بس یہی بسیکھ
ہوں تج دیکھوں تو مج دیکھ
میر امن نے ستم یہ کہا کہ شعر کو نثر کی طرح لکھا۔ حواشی میں اگر صحیح انتساب، درست متن اور میر امن کی تحریف کا بھی تذکرہ ہوتا تو بہت خوب تھا۔
اب کے بھی دن بہار کے یونہی چلے گئے۔
اگر وضاحت ہو جاتی کہ یہ مصرع سودا کا ہے اور چلے گئے کے بجائے گزر گئے ہوتا تو بہت خوب تھا۔
خمس کی تشریح میں لکھا ہے: فقہ جعفری کے مطابق مال کا پانچواں حصہ جو غریبوں اور لا وارثوں کے لئے دیا جائے۔ صحیح صورتحال یہ ہے کہ بچت کا پانچواں حصہ خمس کہلاتا ہے جس کا نصف سہم امام علیہم السلام اور نصف سہم سادات زاد اللہ شرفہم۔ سہم امام میں سے حاکم شرع مذہبی فرائض کی بجا آوری کے لئے خرچ کرتا ہے۔ یعنی مساجد اور امام باڑہ وغیرہ کی تعمیر اور سہم سادات بنی فاطمہ کا حق ہے۔ ۲۸)
کچھ اور الفاظ کے سلسلے میں اپنی کم علمی کے اعتراف کے ساتھ وضاحت مقصود ہے۔ Present Version اور Preface لکھنے کا کوئی جواز سمجھ میں نہیں آسکا۔ جبکہ اردو میں اس کا مترادف موجود ہے۔ ۲۹)
کتاب میں ہر جگہ جز کو جزو کے معنی میں لکھا گیا ہے۔ میر انیس نے
جز خاک نہ تکیہ نہ بچھونا ہو گا
لکھا ہے کہ جز کے معنی سوا اور جز و بہ معنی ایک حصہ۔ کتاب میں دونوں کی املا ایک ہی ہے۔ اطائی انقلاب کے معنی اگر یہ ہیں تو بصدحسرت و یاس اس سے استفادہ دینے کو جی چاہتا ہے اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ درسگاہوں میں یہ چلن عام ہو گا اور اس کی آڑ میں بیشتر الفاظ کی پا شکنی ہو گی۔ میں بے حد ادب سے درخواست کرتا ہوں کہ ان دونوں الفاظ کی حد تک املا کا اجتہاد و انقلاب کام نہ لایا جائے۔ ۳۰)
موچھ درج ہے لیکن سنسکرت کے علماء سے مونچھ سنا۔ ’’منھ چھو’‘ کی مناسبت سے مونچھ زیادہ درست معلوم ہوتا ہے۔
اسرار و اسرار کی دلچسپ بحث میں اسرار کو ترجیح دی ہے۔ اسرار بھوت، پریت، آسیب کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ میر امن چوتھے درویش کی سیر میں لکھتے ہیں :
’’مدت سے یہ تماشا ہو رہا ہے
لیکن اب تک اسرار معلوم نہیں ہوتا۔‘
سیاق عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں بھید ے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ اسرار مرجح ہے۔ اسرار کی صوت اصرار کی طرف لے جاتی ہے۔
شیدی، سیدی اور سدی کی بحث کے سلسلے میں یہ عرض کرنا ہے کہ یہ سدی ہے بے معنی حبشی، میر امن نے جس نمکیں شخص کا سراپا بیان کیا ہے وہ حبشی ہی معلوم ہوتا ہے۔ حیدرآباد میں آج بھی سدی عنبر بازار موجود ہے۔
بھچنپا کا مطلب جھاڑ دار درخت نہیں ہوسکتا۔ میر حسن کہتے ہیں
کہے تو کہ جیسے بھیجنپا کے جھاڑ بھچنپا خود ایک جھاڑ (درخت) ہوتا ہے۔
سنگت کے ایک ہی معنی درج ہیں ۔ بے شک فرہنگ کا تقاضا یہی ہے لیکن اور معنی بھی اگر لکھ دئیے جاتے تو کیا خوب ہوتا جبکہ اور الفاظ کے دوسرے معنی بھی لکھ دئیے گئے ہیں ۔
سات سو صفحات کا ایک ایک لفظ موتیوں سے تولے جانے کا مستحق ہے۔ کسی بھی تنقیدی مقالے میں اتنی صاف ستھری سجی سنوری زبان نظر سے نہیں گزری۔ محققین کی حسابی اور جناتی زبان کی جو روایت ہے اس سے یہ بالکل الگ ہے۔ صرف دو جگہیں ایسی تھیں جہاں ذہن کو یہ احساس ہوا کہ وہ گلستاں میں جوئے نغمہ خواں نہیں بلکہ کسی جوہڑ کے بیہڑ راستے پر ڈھلک گیا ہے۔ مثلاً لکھتے ہیں :
’’مجھے صحیح معنی میں تعجب اس پر ہے’‘ ۔ ۔ ۔
تعجب صحیح معنی میں ہوتا ہے غلط معنی میں نہیں ہوتا۔ صحیح، معنی، یہ دو لفظ غیر ضروری ہیں ۔
اسی طرح تحریر فرماتے ہیں :
’’پرانے قلعے کے قریب یہ مقبرہ ہے لال کنور شاہ عالم کی مان کا۔!’‘ ۳۲)
پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ تحریر خاں صاحب کے شایان شان نہیں ہے۔ شاید وہ اس پہلوئے ذم کی طرف اپنی شرافت نفس کی بنا پر متوجہ نہ ہوسکے۔ دوسری بات یہ ہے کہ لال کنور شاہ عالم کی ماں نہیں تھیں ۔ شاہ عالم کے لئے قائم نے لکھا۔
دادا ترا جو لال کنور کا تھا مبتلا
اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ شاہ عالم جہاں دار شاہ کا پوتا تھا اور لال کنور جہاں دار شاہ کی داشتہ تھی۔ اس لئے وہ شاہ عالم کی ماں تو نہیں ہوسکتی تھی۔
ایک جگہ لکھتے ہیں :
’’صاف معلوم ہوتا ہے کہ چوں کہ انہوں نے فرض کر لیا۔ ۔ ۔ ‘‘ ۳۳)
’’کہ’‘ کے بعد ’’چونکہ’‘ خلاف سلاست ہے۔
ان کی وسیع القلبی اور اعلیٰ ظرفی کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ انہوں نے جہاں محققین اور مدرسین کا شکریہ ادا کیا ہے وہیں اس خوش نویس کا بھی شکریہ ادا کیا ہے جس کی سات سو بارہ صفحات کی کتابت میں راقم الحروف کو صرف تین غلطیاں مل سکی ہیں ۔ صفحہ ۲۹۹ سطر۸ میں چ کے تینوں نقطے چھوٹ گئے ہیں اور ص ۲۷۲ پر میدان کے بعد ’’میں ‘‘ چھوٹ گیا ہے۔ ص ۲۷۳ پر ۱۲۶۱ھ ہو گیا ہے یہ ۱۲۱۶ھ ہے اور ممتاز حسن اور ممتاز حسین میں اس لئے ذہنی انتشار ہوتا ہے کہ راقم الحروف اپنی کم علمی کی بناء پر صرف ممتاز حسین (مرتب باغ و بہار) سے واقف ہے جن کا حال میں انتقال ہوا اور جو سرخ تنقید کے مسافر کہے جاتے تھے۔ ممتاز حسن نام کے ایک بزرگ پاکستان ریزرو بنک کے گورنر ہوا کرتے تھے۔ ہوسکتا ہے انہوں نے امیر خسرو پر کوئی کتاب مرتب کی ہو جو راقم الحروف کی نظر سے نہیں گزری لیکن باغ و بہار والے تو ممتاز حسین ہی ہیں ۔
ایک ایسی کتاب میں جہاں کسرہ و فتحہ ہر باب میں ہو اور رموز و اوقاف کی پابندی کی گئی ہو، وہاں تلاش بسیار کے بعد تین غلطیوں کا ملنا اسے صحیفۂ آسمانی ہونے سے تو بچا لیتا ہے لیکن یہ اردو کی کتاب نہیں معلوم ہوتی! خوش نویس ابو جعفر زیدی کے قلم کو سلام !
تدوین متن کے اصول الہامی نہیں ہیں اور نہ ہی ان میں اضافہ یا ترمیم بدعت سیہ ہے۔ تدوین میں عموماً کتابیات کی ضرورت نہیں ہوتی لیکن اتنی کتابوں کے حوالے دئیے گئے اور یہ ادعا بھی ہے کہ یہ کتاب مدرسین اور طالب علموں کے لئے ہے اور اس میں تقریباً نصف سے زائد حوالے ایسے ہیں جن سے اردو کے عام طالب علم اور مدرسین واقف نہیں ہیں ۔ اس لئے کتابیات ہوتی تو زیادہ بہتر ہوتا۔
آخری بات !
فاضل مرتب نے ماخذ کی بحث بہت سرسری کی۔ انہوں نے متصوفانہ پہلو کو قطعی طور پر نظرانداز کر دیا۔ بے شک ان کے اوپر یہ واجب نہیں تھا کہ وہ یہ بحث کریں لیکن ماخذ کی بحث اگر ہوتی تو یہ بہت بڑا استحباب ہوتا ہے۔
رشید حسن خاں نے مقدمہ میں کچھ متون کو مرتب کرنے کی تمنا کا اظہار کیا ہے ان میں ایک اضافہ اگر اردو کے پہلے صاحب دیوان شاعر کی کلیات کا بھی کر لیا جائے تو احسان عظیم ہو گا۔ اردو کی دعا ہے کہ وہ ہر خطہ نئے طور اور نئی برق تجلی سے روشناس کراتے رہیں اور طالب علم کی یہ آرزو ہے کہ وہ اپنی ساری تمناؤں کی تکمیل کر سکیں (آمین) اور دنیا میں انہیں جتنے بھی اعزازات و انعامات ملیں کم ہیں ۔ مگر میری چشم تخیل دیکھ رہی ہے کہ فرشتے ان کا یہ کارنامہ باغ بہشت میں لے گئے ہیں اور امتیاز علی خاں عرشی اسے میر امن کو پیش کرتے ہوئے مسعود حسن رضوی ادیب اور قاضی عبدالودود سے کہہ رہے ہیں کہ اب دنیا میں
آ کے سجادہ نشیں قیس ہوا میرے بعد
نہ رہی دشت میں خالی مری جا، میرے بعد
No comments:
Post a Comment