Sunday, July 8, 2012

جوش ملیح آبادی بحیثیت ترقی پسند شاعر

جوش ملیح آبادی بحیثیت ترقی پسند شاعر
ترقی پسند شاعری کا ذکر آتے ہی چند شعراء کے ساتھ جوش ملیح آبادی کا نام سطحِ ذہن پر ابھرتا ہے۔ اور دو حیثیتوں سے اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔ شاعر انقلاب اور شاعر شباب۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اردو میں ترقی پسند تحریک کو آگے بڑھانے میں جوش کا قابل قدر حصہ رہا ہے۔ ترقی پسند تحریک کے ابتداء سے ہی جوش متعلق ہو گئے تھے اور آخر تک نہ صرف یہ کہ اس تحریک کے ساتھ رہے بلکہ اپنی تخلیقات میں ترقی پسندانہ نظریات کو پیش بھی کیا لیکن جب ہم جوش کی شاعری کا جائزہ لیتے ہیں تو ان کے یہاں ہمیں شروع ہی سے وہ موضوعات کارفرما دکھائی دیتے ہیں۔ جو ترقی پسند شعراء کے یہاں خصوصیت کے حامل ہیں۔
جوش ملیح آبادی کی شاعری کا زمانہ 20 ویں صدی سے ہی شروع ہوتا ہے۔ انہوں نے اپنی شاعری کی ابتداء سے ہی اپنی نظموں میں ایسے موضوعات اختیار کرنا شروع کر دئیے تھے جو ترقی پسند تحریک کے آغاز کے بعد اردو شعراء نے اپنی تخلیقات میں پیش کیے۔ یہ تحریک 20 ویں صدی کے ابتداء سے ہی رونما ہونے والی معاشی، سیاسی اور سماجی تبدیلیوں کا نقطہ ارتقاء تھی۔ اس لحاظ سے جوش کی شاعری میں ترقی پسندانہ عناصر کا ملنا تعجب خیز نہیں۔ 1936 ء میں لکھنؤ میں جو کانفرنس ہوئی تھی۔ اس میں ادب کی مقصدیت پر زور دیا گیا۔ سرمایہ دارانہ نظام سے تہذیب و کلچر کو خطرات تھے۔ ان سے ادیبوں کو آگاہ کیا گیا اور بتایا گیا کہ فنکار کا منصب یہ ہونا چاہیے کہ وہ ادب کے ذریعے انسانیت، جمہوریت اور اخوت و مساوات جیسی اقدار کو ترجیح دیں۔
اس تحریک کو ہندوستان کی مختلف زبانوں کے ادیب اور شاعروں کا تعاون حاصل تھا۔ بعد ازاں وہ تمام فنکار تحریک کے مقاصد کے حصول کے لئے سرگرم عمل ہو گئے۔ ترقی پسند تحریک نے اردو ادب پر اپنے گہرے اور ہمہ گیر اثرات چھوڑے اور اردو کے مختلف اصناف ادب اس تحریک سے متاثر ہوئے لیکن خاص طور پر اردو شاعری پر ترقی پسند تحریک کے بہت زیادہ اثرات پڑے اور اس تحریک کے زیر اثر اردو شاعری میں ایک کثیر سرمائے کا اضافہ ہوا۔ شاعروں کی ایک پوری نسل جس میں جوش، مجاز، مخدومؔ، جذبیؔ، علی سردار جعفریؔ فیض احمد فیضؔ، مجروحؔ وغیرہ سامنے آئے۔ ترقی پسند تحریک کے زیر اثر اردو شاعری میں نظم گوئی کو بڑا فروغ حاصل ہوا۔ اس تحریک سے اردو شاعری میں مقصدی اور موضوعاتی نظموں کو اہمیت حاصل ہوئی۔ انقلابی رجحان کے تحت غلامی کے خلاف سامراج کی چال بازیوں اور آزادی کے موضوعات پر بھی بے حساب نظمیں کہی گئیں۔ حقیقت نگاری کے تحت ترقی پسندوں نے اپنی نظموں میں عام انسانی زندگی کی تصویر کشی کے ساتھ ساتھ عام انسانوں کے مسائل اور نچلے غریب طبقے کے دکھ درد، پریشانیوں اور مصیبتوں کی بھی بھرپور ترجمانی کی ہے۔ ترقی پسند تحریک کے زیر اثر اردو شاعری میں محبت اور محبوب کا ایک تقریباً نیا تصور سامنے آیا اور اظہار اور زبان و بیان کے پیرایوں پر بھی اپنے اثرات مرتب کئے۔
اردو شعر و ادب میں ترقی پسندانہ اور انجمن ترقی پسند مصنفین کے اثرات کا جائزہ لیتے ہوئے جب ہم جوش کی شاعری کے موضوعات ان کے انداز بیان اور لب ولہجہ پر نظر ڈالتے ہیں تو جوش ہمیں کافی اہم دکھائی دیتے ہیں، اس تحریک سے پہلے جوش ملیح آبادی نے اپنی انفرادیت قائم کر لی تھی اور وہ ایک خالص نظم گو کی حیثیت سے معروف ہو چکے تھے۔
جو ش کی 1936 ء سے قبل کی نظموں سے یہ صاف واضح ہے کہ جو کام پریم چند افسانوی ادب کے ذریعہ انجام دے رہے تھے، جوش نے اپنی شاعری اسے وہی کام انجام دیا۔ جوش کی حقیقت پسندی، مقصدیت اور انقلاب کی نعرہ بندی ان کے اجتہادی ذہن کی دلیل ہے۔ جوش کی قادر الکلامی کا معجزہ تھا۔ انہوں نے غیر شاعرانہ موضوعات کو بڑی خوبی کے ساتھ شاعرانہ بنا دیا۔ جوش کے سرگرم جذبے نے ابتداء ہی سے دنیا اور بالخصوص غلام ہندوستان کے زخموں کو محسوس کر لیا تھا۔ اس لئے ان کی نظموں میں جو تڑپ، سرگرمی، جوش اور جذبہ موجزن ہے، اس کی جھلک ان کے پیش روؤں میں کہیں نہیں ملتی۔’’حالات حاضرہ‘‘ شکستِ زنداں کا خواب، ’’دام فریب‘‘ گرمی اور دیہاتی بازار، ہم لوگ وغیرہ قابل ذکر نظمیں ہیں۔ ان نظموں میں جوش نے آزادی، انقلاب، بغاوت اور حقیقت کی بھرپور ترجمانی کی ہے۔ انہیں موضوعات کو ترقی پسند مصنفین نے بہت بعد میں اپنایا تھا۔’’حالات حاضرہ‘‘ جو پہلی جنگ عظیم کے زمانے میں لکھی گئی تھی۔ جوش نے ہندوستانی حالات سے عوام کو آگاہ کرتے ہوئے جنگ کے نقصانات بھی بتائے ہیں اور اس کا احساس دلاتے ہوئے کہتے ہیں۔
ہر چیز پر سکوت ہے ہر شئے اداس ہے
ہر حکمراں سے دہر میں دنیا اُداس ہے
۔۔
یہ جنگ کیا ہے ایک مجسم جنوں ہے
گلزارِ کائنات کے شانوں میں خون ہے
ان کی ایک اور نظم ’’شکستِ زنداں کا خواب‘‘ جو کہ 1921 ء میں لکھی گئی تھی۔ جوش کی سیاسی اور سماجی سوجھ بوجھ اور عالمی ہمتی کی مثال ہے۔ اس نظم میں جوش نے ہندوستان کو ایک قید خانے کی شکل میں پیش کیا ہے۔ اس قید خانے کے قیدی اب انقلاب برپا کرنے والے ہیں۔ وہ اکھٹے ہونے لگے ہیں، وہ اب قید کی زندگی سے اُکتا گئے ہیں اور غصے میں بے قابو ہونے لگے ہیں۔ بادشاہ وقت کا چہرہ ان کی اس کیفیت سے خشک نظر آ رہا ہے۔ جوش اس نظم میں خطاب کا انداز اختیار کرتے ہوئے کہتے ہیں۔
کیا ان کو خبر تھی ہونٹوں پر جو قُفل لگایا کرتے تھے
ایک روز اسی خاموشی سے ٹپکیں گی دہکتی تقریریں
1928 ء میں سائمن کمیشن کی آمد کے موقع پر ایک نظم ’’دام فریب‘‘ لکھ کر اپنے قلبی تاثرات پیش کئے۔ 1931 ء میں زنداں کا گیت لکھ کر قفس کی کروٹوں میں طوفان کی آمد کی اطلاع اور آزادی کی شدید خواہش کا کھلا اظہار کیا۔ اس طرح نظم ’’ہوشیار‘‘ میں ملک کے مزدوروں کو سرمایہ داری کے خطرات سے آگاہ کیا۔ نظم ’لمحہ آزادی‘‘ میں جو انہوں نے 1931 ء میں لکھی تھی غلامی سے اپنی نفرت کا اظہار اس طرح کیا تھا۔
سنو اے ساکنانِ بزم گیتی
صدا کیا آ رہی ہے آسماں سے
کہ آزادی کا ایک لمحہ ہے بہتر
غلامی کی حیات جاوداں سے
ان نظموں میں انقلاب، بغاوت، آزادی، امن اور حقیقت کی تصویر کشی جیسے مضامین ترقی پسند تحریک کے وجود میں آنے سے پہلے ہی نظر آ چکے تھے۔ ترقی پسند تحریک کے بعد یہ مضامین اور طاقتور ہو کر اُبھرے ہیں۔ ان کی اس دور بکی ایک اہم اور مقبول نظم ’’ایسٹ انڈیا کمپنی کے فرزندوں سے خطاب‘‘ کے لیے اگر یہ کہا جائے کہ ترقی پسند ادب کے فن پاروں میں اس سے زیادہ مقبول کوئی اور نظم نہیں ہو سکتی ہے تو غلط نہ ہو گا۔ یہ نظم آج بھی اتنا ہی اثر پڑھنے والے پر طاری کرتی ہے، ملاحظہ ہو۔
کس زباں سے کہہ رہے ہو آج اے سودا گرو!
دہر میں انسانیت کے نام کو اونچا کرو
جب یہاں آئے تھے تم سوداگری کے واسطے
نوعِ انسانی کے مستقبل سے کیا واقف نہ تھے ؟
جوش نے اپنے زمانے کے مسائل کو اپنی شاعری میں اس طرح سمو دیا ہے کہ وہ ترقی پسندوں کے پیش رو کی حیثیت کے حامل بن گئے ہیں اور یہی سبب ہے کہ ترقی پسندوں نے اگر کسی کو آخری وقت تک ’’قبلہ رندانِ جہاں ‘‘ تسلیم کیا ہے تو وہ صرف جوش ہیں۔ جوش کی باغیانہ اور مجاہدانہ روش اور ان کا انداز کج کلہہی اردو شاعری کا سرمایہ افتخار رہے گا۔
٭٭٭

No comments:

Post a Comment