Monday, July 9, 2012

سحر البیان

سحر البیان


            اُردو کی معروف کلاسیکی مثنوی ’سحر البیان‘  (۱۷۸۵ء۔ ۱۷۸۴ء) کو ممتاز درجہ حاصل ہے۔ اس کی سب سے  بڑی خصوصیت اس کا ڈرامائی جوہر ہے  کہ جس سے  ہم شعوری  اور  غیر شعوری طور پر متاثر ہوتے  ہیں۔ اس کی منظوم صورت  اگر  ہندوستانی جمالیات کے  قدیم علماء کے  سامنے  رکھی جاتی تو وہ اسے  ایک خوبصورت منظوم تمثیل یا ڈراما قرار دیتے  ہیں۔ کرداروں  کے  عمل سے  ایک ڈراما جنم لیتا ہے  ایسا ڈراما جو ان کے  عمل  اور  ردِّ عمل (Karya) سے  ارتقا پذیر ہوتا ہے اور اختتام پر جمالیاتی انبساط  اور  آسودگی بخشتا ہے۔ میر حسن نے  ایک کہانی مرتب کی ہے  اس کے  واقعات مرتب کیے  ہیں۔ ایک خاص عمل کو منتخب کیا ہے  کہ جس سے  دوسرے  عوامل وابستہ ہیں، اسی سے  وحدتِ عمل پیدا ہوئی ہے۔ ہندوستانی جمالیات کے  مطابق ہیرو  اور  ہیروئن کے  عمل میں  زندگی  اور  تحرک پیدا کر نے  کے  لیے  ایک یا ایک سے  زیادہ ضمنی کرداروں  کا ایسا عمل شروع ہوتا ہے  کہ جس سے  بنیادی کہانی کا ارتقا تیزی سے  ہوتا ہے۔ نجم النساء کے  عمل سے  شہزادہ بے  نظیر  اور  بدر منیر کی کہانی میں  تحرک پیدا ہوتا ہے  جس کا اثر کہانی کے  ارتقا پر ہوتا ہے اور تمثیل ایک جمالیاتی تاثر دے  کر اختتام پذیر ہوتی ہے۔ ایسے  ذیلی کرداروں  (Subsidiary Characters) کو ہندوستانی جمالیات میں  ’پراسنگیکا‘  (Prasangika) کہا گیا ہے  یعنی وہ کردار جو حد درجہ مددگار ہو، مرکزی کردار کے  غم کو اپنا غم بنا لے اور اسے  نشاطِ غم میں  تبدیل کر نے  کی کوشش کرے۔ ایسے  کرداروں  کے  عمل سے  تحرک پیدا ہوتا ہے اور مرکزی عمل یا مرکزی کردار کو کامیابی حاصل ہوتی ہے۔ مثنوی سحر البیان میں  نجم النسا ’پراسنگیکا‘  بھی ہے اور مدد کرتے  ہوئے  خود ایک رومانی فسانے  کا مرکزی کردار بن جاتی ہے، مرکزی کہانی کے  ساتھ ایک چھوٹی سی کہانی بھی وجود میں  آ جاتی ہے۔ نجم النسا  اور  فیروز شاہ کی ایسی چھوٹی کہانی قدیم ڈراموں، فسانوں اور تمثیلوں  میں  بڑی اہمیت رکھتی ہے۔ ہندوستانی جمالیات میں  اسے  ’پاٹکا‘  (Patka) کہتے  ہیں  یعنی ایک دوسری کہانی چھوٹی سی! کوئی ضروری نہیں  کہ اس چھوٹی کہانی کا بھی باضابطہ ارتقا ہو، ارتقا کے  بغیر کرداروں  کا عمل توجہ طلب بن جاتا ہے، ایسے  مختصر عمل کو سمجھنے  کے  لیے  ہندوستانی جمالیات میں  ’پراکاری‘  (Prakari) کی اصطلاح استعمال کی گئی ہے  یعنی صرف ایک واقعہ ارتقا کے  بغیر!
            ہندوستانی جمالیات کے  پیشِ نظر ’سحر البیان‘  کی کہانی اس لیے  بھی اہم ہو جاتی ہے  اس میں  بظاہر عام قصوں  کی طرح ایک ابتدائیہ ہے۔ ابتدائیہ کی حیثیت ایک ’بیج‘  (Bija) کی ہے  جو ممکن ہے  کبھی ایک درخت بنے اور پھول پھل دے۔ پھل پیدا ہو اس واسطے  ’بیج‘  ڈالتے  ہیں، کوئی ضروری نہیں  کہ کامیابی ہو۔ درخت کی صورت کیا ہو گی  اور  کیسا پھل حاصل ہو گا کچھ کہا نہیں  جا سکتا۔ اچھے  پھل بھی حاصل ہوتے  رہے  ہیں، اس مثنوی میں  جو ابتدائیہ ہے  وہ بھی بیج ہے  کہانی کے  اختتام تک اچھا پھل تو آیا، ایک پیاری سی دلکش کہانی نے  متاثر کیا جمالیاتی انبساط حاصل ہوا لیکن مثنوی سحر البیان جیسی عمدہ کہانی کے  پیشِ نظر ہندوستانی جمالیات کی روشنی میں  غالباً یہ کہنا مناسب ہو گا کہ یہ ’بیج‘  بھی ہے اور ایک ’بندو‘  (Bindu) بھی یعنی ایک قطرہ، جس طرح پانی میں  تیل کا ایک قطرہ ڈالتے  ہیں اور یہ نظارہ دیکھنے  کو ملتا ہے  کہ تیل کا قطرہ پانی کے  اوپر پھیل رہا ہے  اسی طرح اس قصّے  کا نظارہ ہے۔ ’پانی‘  کی مانند عام کہانی ہے  لیکن اس پر جب تخلیقی ذہن سے  ایک قطرہ رس گر جاتا ہے  تو وہ کوئی  اور  ہی نظارہ پیش کر نے  لگتا ہے۔ ’ابتدائیہ‘  سے  گزرتے  ہوئے  اچانک پانی کی صورت تبدیل ہو جاتی ہے:
کسی طرف سے  وہ نہ رکھتا تھا غم
مگر ایک اولاد کا تھا الم
اسی بات کا اس کے  تھا دل پہ دماغ
نہ رکھتا تھا وہ اپنے  گھر کا چراغ
دنوں  کا عجب اس کے  یہ پھیر تھا
کہ اس روشنی پر یہ اندھیر تھا
وزیروں  کو اِک روز اس نے  بلا
جو کچھ دل کا احوال تھا سو کہا
کہ میں  کیا کروں  گا یہ مال و منال
فقیری کا ہے  میرے  دل کو خیال
            ہندوستانی جمالیات میں  ’تیل کے  ایک قطرے ‘  یا ’بندو‘  (Bindu) کا استعارہ ہیجانات، تجربات  اور  واقعات کے  تسلسل کے  لیے  ہے۔ یعنی ہیجانات پیدا ہوتے  رہیں  گے، تجربے  حاصل ہوتے  رہیں  گے اور واقعات سامنے  آتے  رہیں  گے۔
             اور  اس سلسلے  میں  ’مثنوی سحر البیان‘  سے  مایوسی نہیں  ہوتی!!تیل کا قطرہ (بندو) پانی پر پھیلتا ہے  تو منظر  اور  پُر کشش ہو جاتا ہے۔ تجسّس بڑھتا ہے  یہ جاننے  کی خواہش ہوتی ہے  کہ آگے  جو ہو گا وہ کیا ہو گا۔ بادشاہ نجومیوں  سے  یہ کہتا ہے:
نکالو ذرا اپنی اپنی کتاب
مرا ہے  سوال، اس کا لکھو جواب
نصیبوں  میں  دیکھو تو میرے  کہیں
کسی سے  بھی اولاد ہے  یا نہیں
تو یہ منظر سامنے  آتا ہے:
یہ سن کر، وے  رمّال۱؂ طالع شناس۲؂
لگے  کھینچے  زائچے  بے  قیاس
دھرے  تختے  آگے، لیا قرعہ۳؂ ہاتھ
لگا دھیان اولاد کا اس کے  ساتھ
جو پھینکیں، تو شکلیں  کئی بیٹھیں  مل
کی شکل سے  دل گیا ان کا کھل
جماعت نے  رمّال کی عرض کی
کہ ہے  گھر میں  امید کے  کچھ خوش
یہ سن ہم سے  اے  عالموں  کے  شفیق
بہت ہم نے  تکرار کی ہر طریق
بیاض اپنی دیکھی جو اس رمل کی
تو ایک ایک نقطہ ہے  فرد خوشی
ہے  اس بات پر اجتماعِ تمام
کہ طالع میں  فرزند ہے  تیرے  نام

نحوست کے  دن سب گئے  ہیں  نکل
عمل اپنا سب کر چکا ہے  زحل۴؂
ستارے  نے  طالع کے  بدلے  ہیں  طور
خوشی کا کوئی دن میں  آتا ہے  دور
نظر کی جو تسدیس۵؂ و تثلیث۶؂ پر
تو دیکھا کہ ہے  نیک سب کی نظر
کیا پنڈتوں  نے  جو اپنا بچار
تو کچھ انگلیوں  پر کیا پھر شمار
جنم پتّرا شاہ کا دیکھ کر
تلا  اور  برچھک پہ کر کر نظر
کہا رام جی کی ہے  تم پر دَیا
چندرّما سا بالک ترے  ہو وے  گا
مہاراج کے  ہوں  گے  مقصدِ شتاب
کہ آیا ہے  اب پانچواں  آفتاب
 اور  پھر بھرت کے  ناٹیہ شاستر، کے  مطابق ’بیج‘  پھوٹتا ہے، ’ابتدائیہ‘  کے  بطن سے  ایک نئی چونکا دینے  والی ’ابتدا‘  (آرمبھ (Arambha وجود میں  آتی ہے:
ولیکن مقدر ہے  کچھ  اور  بھی
کہ میں  ایں  بھلے  گے  برے  طور بھی
یہ لڑکا تو ہو گا، ولے  کیا کہیں
خطر ہے  اسے  بارہویں  برس میں
نہ آولے  یہ خورشید بالائے  بام
بلندی سے  خطرہ ہے  اس کو تمام
نہ نکلے  یہ بارہ برس رشک مہ
رہے  برج میں  یہ مہہ چار وہ
کہا شہ نے  یہ سن کے  ان کے  تئیں
کہو جی کا خطرہ تو اس کونیں؟
کہا جان کی سب طرح خیر ہے
مگر دشتِ غربت کی کچھ سیر ہے
کوئی آس پہ عاشق ہو جن ویری
کوئی اس کی معشوق ہوا تیسری
کچھ ایسا نکلتا ہے  پوتھی میں  اب
خرابی ہو اس پر کسی کے  سبب!
            ہندوستانی جمالیات میں  اس نئی چونکا دینے  والی ابتدا یا آرمبھ کو ’مکھ‘  (چہرہ) کہتے  ہیں۔ کہانی کی آنکھیں  کھلی ہیں۔ آنکھوں  کے  کھلنے  کے  بعد ہی مکھ یا چہرے  کی بہتر پہچان ہوتی ہے۔ ایسی تمثیل یا ’کاویہ‘  میں  ’مکھ‘  سے  اچانک جمالیاتی تجربہ تو حاصل ہوتا ہی ہے  مکھ، آہستہ آہستہ کی جمالیاتی تجربوں  سے  بھی آشنا کرتا جاتا ہے۔ آئندہ رونما ہونے  والے  واقعے  یا عمل کی جھلک اس بجلی کی چمک سے  نظر آ جاتی ہے۔ کہانی کی آنکھیں  کھلتی ہیں  تو بجلی سی چمک جاتی ہے اور مستقبل کی جھلک دکھائی دینے  لگتی ہیں۔
             ’’سحر البیان‘‘  کی تمثیل کی ایک بڑی خصوصیت یہ ہے  کہ یہ کرداروں  کے  عمل  اور  واقعات کے  پیشِ نظر مختلف مناظر میں  تقسیم ہے، ہر منظر کا اپنا ڈرامائی آہنگ ہے، مختلف مناظر اتنے  گتھے  ہوئے  ہیں  کہ جمالیاتی وحدت کا احساس مل جاتا ہے۔ ہندوستانی جمالیات کے  مطابق کہانی کے  ارتقا کے  لیے  مختلف مناظر کی تشکیل تو ہوتی ہے  لیکن اختتام تک ایک ’جمالیاتی وحدت‘  کا پیدا ہونا ضروری ہے۔ اس منظوم داستان میں  جو جمالیاتی وحدت پیدا ہوئی ہے  وہ پچھلی کئی منزلوں  سے  آشنا کرتی ہے، تخلیقی ذہن کا سفر ان منزلوں  پر جاری رہا ہے۔ پہلی منزل ’بیج‘  (آرمبھ (Arambha  کی ہے، دوسری منزل کرداروں  کے  عمل  اور  واقعات کے  ارتقا (پرایا تنا (Prayatna کی ہے اور تیسری منزل پھل پا لینے  یا اختتام (پھل یوگ (Phalayoga کی ہے۔
            میر حسن نے  عنوانات قائم کر کے  مناظر کی تقسیم کی ہے  مثلاً ’داستان تولد ہونے  کی شاہزادہ بے  نظیر کے ‘ ، ’داستان تیاری میں  باغ کی‘ ، ’داستان شاہزادے  کے  کوٹھے  پر سونے  کی  اور  پری کے  اُڑا کر لے  جانے  کی‘ ، ’داستان پرستان میں  لے  جانے  کی‘ ، ’داستان وارد ہونے  میں  بے  نظیر کے  بدر منیر کے  باغ میں ‘   اور  شاہزادی کے  عاشق ہونے  کی‘ ، ’داستان نجم النسا کے  جوگن ہونے  میں ‘  وغیرہ۔ ہر منظر کی اپنی تاثیر  اور  دلآویزی ہے۔ ہر منظر کی اپنی ڈرامائی کیفیت ہے۔ رومانیت  اور  ’ ’"سی‘  سے  فنکار کے  ذہن کی زرخیزی کی پہچان ہوتی ہے۔ ان مناظر میں  افسانوی کردار رنگا رنگ تجربات کے  ساتھ آئے  ہیں، مناظر کی موزونیت  اور  تازگی متاثر کرتی ہے۔ میر حسن ایک عمدہ تخلیقی ذہن رکھتے  ہیں، مثنوی کے  مناظر میں  خارجی  اور  داخلی کیفیات کی آمیزش سے  ان کی تخلیقی صلاحیت کی بہتر پہچان ہوتی ہے۔ مثلاً:
  کھلی آنکھ جو ایک کی وہاں  کیں
تو دیکھا کہ وہ شاہ زادہ نیں
نہ ہے  وہ پلنگ  اور  نہ وہ ماہ رو
نہ وہ گل ہے  اس جا، نہ وہ اس کی بو
رہی دیکھ یہ حال حیرانِ کار
کہ یہ کیا ہوا ہائے  پروردگار
کوئی دیکھ یہ حال رونے  لگی
کوئی غم سے  جی اپنا کھونے  لگی
کوئی بلبلاتی سی پھر نے  لگی
کوئی ضعف ہو ہوکے  گر نے  لگی
کوئی سرپہ رکھ ہاتھ، دل گیر ہو
گئی بیٹھ ماتم کی تصویر ہو
کوئی رکھ کے  زیرِ زنخداں  چھڑی
رہی نرگس آسا کھڑی کی کھڑی
رہی کوئی انگلی کو دانتوں  میں  داب
کسی نے  کہا گھر ہوا یہ خراب
کسی نے  دیے  کھول سنبل سے  بال
تپانچوں  سے  جوں  گل کے  سرخ گال
سنی شہ نے  القصہ جب یہ خبر
گرا خاک پر کہہ کے  ہائے  پسر!
کلیجا پکڑ ماں  تو بس رہ گئی
کلی کی طرح سے  بیکس رہ گئی
 ’’بے  نظیر کے  غمِ ہجر سے  بدر منیر کی بے  قراری میں‘‘  کے  منظر کا یہ رُخ دیکھیے، ایک خارجی واقعہ یا حادثہ رونما ہوا ہے اور داخلی کیفیتوں  کی پہچان اس طرح ہونے  لگتی ہے:
ذرا آئینہ لے  کے  دیکھا جو رنگ
تو جوں  آئینہ رہ گئی وہ بھی دنگ
بدن کو جو دیکھا تو زار و نزار
کسی کو کوئی جیسے  دیوے  فشار۶؂
فلک کی طرف دیکھو  اور  شکر کر
لگی دل کو بہلانے  ایدھر اُدھر
زباں  پر تو بائیں، ولے  دل آراس
پراگندہ حیرت ہے  ہوش و حواس
نہ منہ کی خبر  اور  نہ تن کی خبر
نہ سر کی خبر، نہ بدن کی خبر
اگر سر کھلا ہے  تو کچھ غم نیں
جو کرتی ہے  میلی تو محرم نیں
جو مسّی ہے  دو دن کی، تو ہے  وہی
جو کنگھی نہیں  کی، تو یوں  ہی سہی
جو سینہ کھلا ہے  تو دل چاک ہے
غم آلودہ صبحِ عرب ناک ہے
نہ منظور سرمہ، نہ کاجل سے  کام
نظر میں  وہی تیرہ بختی۷؎کی شام
            داخلی ہیجانات و کیفیات کو پیشِ کرتے  ہوئے  تشبیہوں اور استعاروں  سے  خوب کام لیتے  ہیں  لیکن ایک تخلیقی فنکار کی طرح اسلوب ایسا اختیار کرتے  ہیں  کہ تشبیہیں اور استعارے  سب اس طرح جذب ہو جاتے  ہیں  جیسے  یہ اسلوب ہی کے  نگینے  ہوں۔ عام بول چال کی زبان  اور  لہجے  سے  یہ اسلوب اپنی حد درجہ قربت کا احساس دلاتا ہے۔
             ’’مثنوی سحر البیان‘‘  میں  ۲۱۷۹، اشعار ہیں  جو طرزِ بیان کی سادگی، فطری امیجری  اور  بیان کی واضح  اور  صاف (Vividness of Deseriphia) صورتوں  کو اجاگر کیے  ہوئے  ہیں۔ دراصل ایسا ہی اسلوب ’رسوں ‘  (Rasas) کو پیدا کر نے  میں  مددگار ثابت ہوتا ہے۔ اس مثنوی میں  Spontaneous Expression کی جانے  کتنی مثالیں  موجود ہیں، اظہار کی بے  ساختگی نے  جہاں  فنکار کی تخلیقی صلاحیتوں  کو حد درجہ محسوس بنایا ہے  وہاں  اُردو شاعری کے  خوبصورت نمونے  بھی پیش کیے  ہیں۔ کئی مقامات ایسے  ہیں  جہاں  احساس کی شدّت سے  جذبات نقطۂ عروج پر پہنچ گئے  ہیں۔ ’شرینگار رس‘  لیے  تجربے  ہوں  یا ’پیتھوس‘  (Pathos) احساس  اور  جذبے  کی شدّت سے  تجربوں  میں  نغمہ ریز کیفیتیں  پیدا ہو گئی ہیں۔ مثلاً:
نہانے  میں  یوں  تھی بدن کی دمک
برسنے  میں  بجلی کی جیسے  چمک
لبوں  پر جو پانی پھرا سر بسر
نظر آئے  جیسے  وہ گل برگ تر
ہوا قطرۂ آب یوں  چشم بوس
کہے  تو، پڑی جیسے  نرگس پہ  لوش
لگا ہونے  ظاہر جو اعجازِ حسن
ٹپکنے  لگا اس سے  اندازِ حسن

ملی جنس کی اس کو جو اپنی بو
لگا تکنے  حیرت سے  حیران ہو
نظر آئی وہاں  چاندنی کی بہار
کہ آنکھوں  نے  کی خیرگی۸؂ اختیار
در و بام یک لخت سارے  سفید
ہر اِک طاق، محراب، صبح امید
مغرب زمیں  پر تمامی۹؂ کا فرش
جھلک جس کی لے  فرش سے  تا عرش
زمیں  کا طبق، آسماں  کا طبق
سنہری، رپہری ہو جیسے  ورق
بلّوریں  دھرے  ہر طرف سنگِ فرش
کہ جس سے  منوّر رہے  رنگِ فرش
گئی اس کے  عالم پہ جس دم نگاہ
 اور  آیا نظر اس کو اِک رشک ماہ
طرح اس کی، ہر دل کی مانوس تھی
کہ گویا وہ شیشے  کی فانوس تھی
کیں، دیکھ اس کے  تئیں  ہوش مند
پری کو کیا ہے  گا شیشے  میں  بند

وہ آنکھیں  جو روئی ہیں  بس پھوٹ پھوٹ
تو گویا کہ موتی بھرے  کوٹ کوٹ
تپِ غم سے  یوں  تمتمائے  ہیں  گال
کہ جوں  رنگ لالہ ہو وقتِ زوال
گریبان سینے  پہ جو ہے  کھلا
تو گویا وہ ہے  صبحِ عشرت فزا
نقاہت سے  چہرہ  اگر  زرد ہے
دیا آہ ہونٹو وں  پہ کچھ سرد ہے
            ہندوستانی جمالیات میں  ’وی بھو‘  (Vibhavas)  اور  ’انوبھو‘  (Anubhavas) دو اہم اصطلاحیں  ہیں۔ ’وی بھو‘  جذبات  اور  ہیجانات کے  اظہار کی جانب اشارہ کرتے  ہیں،  محبت  اور  ’پیتھوس‘  (Pathos) دونوں  ’وی بھو‘  ہیں۔ وہ اثرات جو کرداروں  کے  عمل  اور  ردِّ عمل سے  مرتب ہوتے  ہیں  وہ ’انوبھو‘  ہیں۔ ’وی بھو‘   اور  ’انوبھو‘  دونوں  کی وحدت سے  جو جمالیاتی تاثرات ملتے  ہیں  وہ ہیجان خیز (Thrill) ہوں  یا عشق و  محبت کی خوشبو لیے  ہوئے، ’رسوں ‘  (Rasas) سے  بھرے  ہوتے  ہیں۔ دشونت  اور  شکنتلا کی پہلی نظر کی  محبت ہی کو ہندوستان کے  رومانی شاعروں  نے  عام طور پر قبول کیا ہے، اُردو کی منظوم کہانیوں  میں  بھی پہلی نظر کی  محبت اہمیت رکھتی ہے۔ ’مثنوی سحر البیان‘  جو ’شیرنگار رس‘  سے  بھری ہوئی ہے  پہلی نظر کی  محبت کا نقش پیش کرتی ہے۔ شہزادے اور شہزادی کی پہلی نظر کی  محبت اپنی جگہ ہے  شہزادے  پر پری بھی پہلی نظر ہی میں  عاشق ہو جاتی ہے:

 محبت کی آئی جو دل پر ہوا
وہاں  سے  اسے  لے  اُڑی دل رُبا
غرض لے  گئی آن کی آن میں
اڑا کر وہ اس کو پرستان میں!
             ’’مثنوی سحر البیان‘‘  میں  کئی ’رسوں ‘  (Rasas) کی آمیزش ہے  لیکن سب سے  زیادہ اہمیت ’شرینگار رس‘ (Srigararasa) کی ہے۔ رومانی تمثیل ہے  اس لیے  فنکار کے  رومانی ذہن  اور  تخیل نے  اس رس کو پیدا کر نے  کی زیادہ سے  زیادہ کوشش کی ہے۔ بنیادی طور پر ’شرینگار رس اس  محبت کارس ہے۔ ہندوستانی جمالیات میں  اسے  سب سے  زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔ ’ناٹیہ شاستر‘  میں  اسے  ’سمبھوگ رس‘  (Sambhoga Sringara) بھی کہا گیا ہے۔ یہ ’سیکس‘   اور  شہوت دونوں  کا رس ہے۔ ’ناٹیہ شاستر‘  میں  جنسی ملن یا میتھن کے  رس کو ’سمبھوگ رس‘  کہا گیا ہے  تو ساتھ ہی اس کی ایک  اور  صورت بتائی گئی ہے  Vipraambha Sringara یعنی جدائی میں  عاشق یا محبوب یا دونوں  کے  ہیجانات کا رس۔ رومانی فضا نگاری  اور  رومان پرور ماحول کی پیشکش میں  اس رس کی بڑی اہمیت رہی ہے۔
             ’’سحر البیان‘‘  میں  ’شرینگار رس‘  سے  جو جمالیاتی آسودگی  اور  انبساط پاتے  ہیں  ان کی پہچان مندرجہ ذیل مقامات پر زیادہ ہوتی ہے:
۱۔          داستانی تیارگی میں  باغ کی:
زمرد کے  مانند سبزے  کا رنگ
روش کا، جواہر ہوا، جس سے  سنگ
روش کی صفائی پہ بے  اختیار
گلِ اشرفی نے  کیا زر نثار
چمن سے  بھرا باغ، گل سے  چمن
کہیں  نرگس و گل، کہیں  یاسمن
چنبیلی کہیں اور کہیں  موتیا
کہیں  رانے  بیل  اور  کہیں  موگرا
کھڑے  شاخِ سبّو کے  ہر جان دن
مدن بان کی  اور  ہی آن بان
۲۔         داستان حمام میں  نہانے  کی لطافت میں:
تنِ نازنیں  نم ہوا ان کا کل
کہ جس طرح ڈوبے  ہے  شبنم میں  گل
نہانے  میں  یوں  تھی بدن کی دمک
برسنے  میں  بجلی کی جیسے  چمک
لبوں  پر جو پانی پھرا سر بسر
نظر آئے  جیسے  وہ گل برگ تر
۳۔         داستان وارد ہونے  میں  بے  نظیر کے  بدر منیر کے  باغ میں اور شاہزادہ کے  عاشق ہونے  میں:
ہوا میں  وہ جگنو سے  چمکیں  بہم
ملیں  جلوۂ مہہ کو زیرِ قدم
فقط چاندنی میں  کہاں  طور یہ
کہ طرہ نہ جب تک ملے اور یہ
زمانہ زر افشاں  ہوا زر فشاں
زمیں  سے  لگاتا سما زر فشاں
گل و غنچہ، نسرین و تاج خیر دس
زمینِ چمن سب، جبینِ عروس
خراماں  زری پوش ہر ماہ وش
کریں  دیکھ کر مہر و مہہ جن کو غش
۴۔         داستان بدر منیر کی تعریف میں:
برس پندرہ ایک کا سن و سال
نہایت حسین  اور  صاحبِ مجال
دیے  کہنی تکیے  پہ اِک ناز سے
سرِ ہنر بیٹھی تھی انداز سے
ادھر آسماں  پر درخشندہ مہہ
ادھر یہ زمیں  پر مہہ چار وہ
پڑا عکس دونوں  کا جوں  نہر میں
لگے  لوٹنے  چاند ہر لہر میں
نظر آئے  اتنے  جو اِک بار چاند
زمانے  کے  منہ کو لگے  چار چاند
عجب طرح کا حسن تھا جاں  فزا
کہ مہ، رو بہ روحیں  کے  تھا بھٹکرا
۵۔         داستان زلف  اور  چوٹی کی تعریف و صحبت اوّل کے  بیان میں:
وہ بیٹھی عجب ایک انداز سے
بدن کو چرائے  ہوئے  ناز سے
منہ آنچل سے  اپنا  چھپائے  ہوئے
لجائے  ہوئے  شرم کھائے  ہوئے
پسینا پسینا ہوا سب بدن
کہ جوں  شبنم آلودہ ہو یاسمن
۶۔         داستان دو بارہ بے  نظیر کے  آنے اور باہم بے  تکلف ملاقات کر نے  میں:
پکڑ ہاتھ، مسند پہ کھینچا اسے
 محبت کے  رشتے  میں  اینجا اسے
لگی کہنے : ہے  ہے، مرا ہاتھ چھوڑ
یہ گرمی ہے  جس سے، رہے  اس کے  ساتھ
کہا: ہائے  پیاری! جلایا مجھے
رکھائی نے  تیری ستایا مجھے
اری ظالم! اِک دم تو تو بیٹھ جا
ذرا میرے  پہلو سے  تکیہ لگا
تڑپتا ہے  کب سے  پڑا میرا دل
ذرا کھول آغوش  اور  مجھ سے  مل
غرض آخرش بعد راز و نیاز
وہ مسند پہ بیٹھی بصد امتیاز
ہوا پھر جو صہبائے  گل گوں  کا دور
ہوا  اور  ہی  اور  کچھ واں  کا طور
ہوئے  جب وے  بدمست دو ماہ رو
لگی ہونے  ان میں  عجب گفتگو
کہ دستے  جو نرگس کے  تھے  وہاں  ہزار
لگے   ڈھانپنے  آنکھ بے  اختیار
خواصیں  جو تھیں  رو بہ رو ہٹ گئیں
بہانے  سے  ہر کام کے  بٹ گئیں
غرض رفتہ رفتہ وہ مدہوش ہو
چھپر کھٹ میں  لیٹے  ہم آغوش ہو
لگے  پینے  باہم شرابِ وصال
ہوا نخلِ امید سے  وہ نہال
لبوں  سے  ملے  لبِ، دہن سے  دہن
دلوں  سے  ملے  دل، بدن سے  بدن
ملیں  آنکھ سے  آنکھ، خوش حال ہو
گئیں  حسرتیں  دل کی پامال ہو
لگی جائے  چھاتی جو چھاتی کے  ساتھ
چلے  ناز و نخرے  کے  پس میں  ہاتھ
کسی کی گئی چولی آگے  سے  چل
کسی کی گئی چین ساری نکل
غم و درد، دامن کشیدہ ہوئے
وہ گل نا رسیدہ، رسیدہ ہوئے
لیا کھینچ اپنوں  نے  جو پردہ شتاب
 چھپے  ایک ہو، دو مہر و آفتاب
لگی ہونے  بے  پردہ جو چھیڑ چھاڑ
درِ حسن کے  کھل گئے  دو کواڑ
۷۔         داستان بدر منیر کے  غم اندوہ میں  اور حسن بائی کے  بلانے  میں:
چمن اس گھڑی برسرِ جوش تھا
گل و غنچہ جو تھا، سو بے  ہوش تھا
زبس عطر میں  تھی وہ ڈوبی ہوئی
دو بالا ہر اِک گل کی خوبی ہوئی
معطر ہوا  اور  گل کا دماغ
کہ مہکا تمام اس کی خوشبوئے  باغ
پڑا عکس جو اس کا طرفِ چمن
ہوا لالہ گل  اور  گل نسترن
درختوں  پر اس کی پڑی جو جھلک
زمرد کو دی  اور  اُس نے  چمک
            ’سرینگار رس‘  کے  پیشِ نظر یہ سب عمدہ تجربے  ہیں۔ منظر نگاری  اور  ماحول کے  جمال میں  یہ رس اسی طرح اہمیت رکھتا ہے  کہ جس طرح عشق و  محبت  اور  وصل کے  لمحوں  کے  بیان میں۔ بھرت نے  ناٹیہ شاستر (۳۱۰۴) میں  تحریر کیا ہے  کہ ’شرینگار رس‘  میں  کئی بھاؤ (Bhavas) ہوتے  ہیں، اس رس کی پہچان صرف ایک ’بھاؤ‘  سے  نہیں  ہوتی، ’سحر البیان‘  کے  مطالعہ سے  پتہ چلتا ہے  کہ اس منظوم تمثیل میں  کئی بھاؤ ہیں، اوپر کی مثالوں  سے  بھی اس بات کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے۔
            ’سحر البیان‘  میں  ’شرینگار رس‘  کے  بعد  اگر  کسی رس کی اہمیت ہے  تو وہ ’اوبھت رس‘  (Adbhuta rasa) ہے۔ حیرت، تحیّر  اور  جمالیاتی آسودگی کے  بغیر اس رس کا تصور نہیں  کیا جا سکتا۔ اس رس کی وجہ سے  ’مثنوی سحر البیان‘  میں  حیرت انگیز انبساط عطا کر نے  کی تو انائی پیدا ہوئی ہے۔ مندرجہ ذیل مناظر ’اوبھت رس‘  لیے  ہوئے  ہیں۔
۱۔          داستان شاہزادے  کے  کوٹھے  پر سونے  کی  اور  پری کے  اُڑا کر لے  جانے  کی:
قضا را ہوا اِک پری کا گزر
پڑی شاہزادے  پہ اس کی نظر
بھبوکا سا دیکھا جو اس کا بدن
جلا آتشِ عشق سے  اُس کا تن
ہوئی حسن پر اس کے  جی سے  نثار
وہ تخت اپنا لائی ہوا سے  اُتار
جو دیکھا تو عالم عجب ہے  یہاں
منوّر ہے  سارا زمیں  آسماں
 محبت کی آئی جو دل پر ہوا
وہاں  سے  اسے  لے  اُڑی دل رُبا
۲۔         داستان پرستان میں  لے  جانے  کی:
طلسمات کے  سارے  دیوار و در
نہ یاں  کے  سے  کوٹھے  نہ یاں  کے  سے  گھر
نہ آتش کا خطرہ، نہ باراں  کا ڈر
نہ سردی نہ گرمی کا اس میں  خطر
جذبے اور ملے  سب مکوں  کے  مکاں
جہاں  چاہیے، جا کے  رکھ دیں  وہاں
درخشندہ، ہر سقف دالان کی
ہو دیوار جیسی چراغان کی
زمیں  واں  کی ساری جواہر نگار
اُدھر میں  چمن،  اور  ہوا میں  بہار
کسی کو ہو جس چیز کا اشتیاق
نظر آوے  وہ چیز بالائے  طاق
مکانوں  میں  مخمل کا فرش و فروش
بہ خطِ سلیمانی اس پر نقوش
طلسمات کے  پردے اور چلمنیں
ارادے  یہ دل کے  اٹھیں اور گریں
            ان کے  علاوہ’ ’خواب دیکھنے  میں  بدر منیر کے  بے  نظیر کو کنویں  میں‘‘  ، ’’داستان نجم الدین کے  جوگن ہونے  میں‘‘  ، ’’داستان فیروز شاہ، جنوں  کے  بادشاہ کے  بیٹے  کے  عاشق ہونے  میں  جوگن پر‘‘  وغیرہ ایسے  مناظر ہیں  جو ڈرامائی جوہر سے  معمور ہیں اور ’’اوبھت رس‘‘  لیے  ہوئے  ہیں۔ ان مناظر میں  جو تحیّر ہے  وہ انبساط عطا کرتا ہے۔ فنکار نے  تحیر  اور  جمالیاتی انبساط (Surprise and Aesthetic Delight) دونوں  کو اہم تصور کیا ہے۔ حیرت انگیز مناظر میں   اگر  زیادہ شدّت پیدا ہو جاتی تو تحیّر کا جمال زیادہ اچھی طرح نمایاں  ہوتا۔ نیز زبردست جمالیاتی آسودگی حاصل ہوتی۔ تمثیل کے  اختتام پر جو ’شانت رس‘  ملتا ہے  اس سے  بھی جمالیاتی مسرّت (Aesthetic Pleasure) حاصل ہوتی ہے۔
            ہندوستانی جمالیات کی روشنی میں  میر حسن کی شاہکار تخلیق ’سحر البیان‘  کا مطالعہ کرتے  ہوئے  مجھے  جو جمالیاتی انبساط حاصل ہوا ہے  جی چاہا اس میں  آپ سب کو شریک کر لوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
  ۱؎        رمّال: جوتشی        ۲؎          طالع شناس: نجومی   ۳؎         قرعہ: پاک ۴؎      زحل: ایک منحوس ستارہ       ۵؎ تسدیس: چاند اور کسی نیک ستارے کے درمیان تین یا گیارہ برجوں کا فاصلہ  ۶؎  تثلیث: : چاند اور کسی نیک ستارے سے دوستی     ۶؂     فشار: بھیجنا   ۷؎         تیرہ بختی: بدنصیبی  ۸؎            خیرگی: چکاچوند    ۹؎           تمامی: ایک قسم کا ریشمی کپڑا
***

No comments:

Post a Comment