KIRORI MAL COLLEGE IQBAL DAY
کروڑی مل کالج دہلی میں یوم اردو و اقبال منایاگیا
علامہ اقبال اور اردو کاآپس میں بہت گہر اتعلق ہے چنانچہ جہاں ارودکا ذکر ہوگا وہاں پر علامہ اقبال کا بھی ذکر ہوگا ،اس کی وجہ یہ ہے کہ علامہ اقبال نے اردو کو اپنے خیالات وافکارکا ذریعہ بنایا اور اپنے کلام کا بیشتر حصہ اسی زبان میں تخلیق کیا۔انھوں نے جہاں فارسی زبان کو اظہار خیال کا ذریعہ بنایا وہیں اردو کو بھی بنایا۔یہی وجہ ہے کہ اردوزبان و ادب اور شاعری نے ان کے قلم سے جلا پائی ہے۔وہ ایک بڑے دانشور اور مفکر قوم ہیں نیز ان کا درد آفاقی ہے اور اس کا ذریعۂ اظہار اردو۔اسی لیے اردو اور اقبال کے مابین خصوصی ربط و ضبط ہے اور اقبال و اردو اور اردو واقبال کا تصور کسی طرح بھی علاحدہ نہیں کیا جاسکتا۔مذکورہ خیالات کا اظہار آج یہاں شعبۂ اردوکروڑی مل کالج،دہلی یونیورسٹی میں منعقدہ خصوصی پروگرام بعنوان’’تقریب بہ موقع اردو و اقبال‘‘کے بینر تلے شعبے کے سینئر استاذڈاکٹر محمد یحییٰ صبا نے کیا۔یہ پروگرام ڈاکٹر محمد خالد اشرف کی صدارت میں منعقد ہوا جس کی نظامت جاوید اختر نے کی۔
ڈاکٹر محمد یحییٰ صبا نے اپنے وقیع خطبے میں طلباء کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اردو کی تدریس افکار اقبال کے بغیر ناممکن ہے۔اقبال ہماری گنگا جمنی تہذیب کے علم بر دار ہیں اور اردو کی بھی یہی خاصیت رہی ہے چنانچہ اقبال کا مقام اس طرح بھی نہایت بلند اور باوقار ہے۔انھوں نے مزید کہا کہ اقبال کا فلسفۂ خودی ایک نایاب اور نادر فلسفہ ہے جو راست قرآن و حدیث کی تعلیمات سے متاثر ہے ۔اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ علامہ نے اسلامی اقتصادیات اور فلسفے میں پی ایچ ڈی کی ہے چنانچہ ان سب چیزوں کا اثر آنا لازمی تھا۔انھوں نے مزید کہا کہ اقبال کی تعلیمات اور اردو کے حوالے سے ان کی خدمات ہمارے لیے نہ صرف قابل عمل ہیں بلکہ قابل فخر سرمایہ بھی۔علامہ اقبال نے ایسے وقت میں اردو کا پرچم بلند کیا جب حقیقی معنوں میں اس کی شناخت اور وجود پر خطرات کے بادل منڈلا رہے تھے۔گو انھوں نے فارسی زبان میں شاعری کی مگر ثانوی زبان کے طور پر اردو ہی ان کی پسندیدہ زبان ٹھہری۔
اس موقع پر شعبے کے ٹیچر انچارج اور سینئر استاذ ڈاکٹر محمد خالد اشرف نے اقبال ڈے کی تقریب کے انعقاد پر شعبے کے طلبا کو مبارک باد دیتے ہوئے اقبال اور اقبالیات پر خصوصی خطاب کیا ۔جس میں انھوں نے تاریخی حقائق اور اس وقت کے سیاسی اتارچڑھاؤ کے حوالے سے بہت سی معلومات افزا اور حیرت انگیز باتیں بتائیں۔انھوں نے علامہ اقبال کوبیسویں صدی کا شاعر بتاتے کہا کہ علامہ اقبال گو پاکستان اور وہاں کے مفکرو ں وشاعرو ں کے امام بن گئے مگر ان کی آفاقیت اور ہندوستانیت سے کسی بھی طور انکار ممکن نہیں ہے۔انھوں نے کہا کہ علامہ اقبال نے ہندوستانی مسلمانوں کی رہنمائی اور خبرگیری ایسے وقت میں کی جب ان کی شناخت اور وجوددونوں مخدوش تھے۔ علامہ اقبال مسلم لیگ کے صدر تھے مگر جناح سے زیادہ سیکولر اور فکر مندانسان تھے چنانچہ انھیں پاکستان کا بانی کہہ کر ہمیشہ مطعون کیا جاتا ہے جب کہ سچی بات یہ ہے کہ اقبال کے درد کو سمجھا ہی نہیں گیا۔وہ کبھی بھی پاکستان کے طور پر کسی آزاد و علاحدہ ملک کے حامی نہیں تھے بلکہ وہ اسی ہندوستان میں مسلمانوں کی اکثریت والے علاقوں میں ان کی جداگانہ حیثیت اور اٹانمس کے حامی تھے۔انھوں نے مزید گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اقبال کا درد اوراقبال کی فکر دونوں غوروفکر اور عمل کی چیزیں ہیں۔
انھوں نے علامہ اقبال اور سرسید احمد خاں کی فکرو ں کا موازنہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر ہم سرسید احمد خاں کی تحریکات،ہندوستانی مسلمانوں میں جدید تعلیم کے رجحانات کا جائزہ لیتے ہوئے ان کی فکرکا اندازہ کرتے ہیں تو ہمیں اقبال کا قد بلند نظر آتا ہے۔وہ ہمیں سرسید سے زیادہ مفکر نظر آتے ہیں۔
اس موقع پر جواہر لال نہرویونیورسٹی کے ریسرچ اسکالر عمران عاکف خان نے اقبال اور یوم اردو کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اقبال اور اردو میں گہری مناسبت اور تعلق ہے۔اقبال کا احسان ارد و پر دوسرے دانشوروں سے زیادہ ہے۔اردو اور اقبال کا جداگانہ تصور ممکن نہیں بلکہ آنے والے وقت میں اقبال اور اردو اسی طرح اردو اور اقبال دونوں ایک ہی بن جائیں گے۔انھوں نے کہا کہ اردو ایک ایسی زبان ہے جو دلوں کی ترجمان اور احساسات کا بیان ہے۔اردو نے اپنے یوم قیام سے ہی دوسری زبانوں کی لفظیات،استعارات،جذبات اور فکروں کو اپنے اندر سمویا ہے۔یہی وجہ ہے کہ وہ بہت تھوڑے عرصے میں دلوں میں اپنا مقام بناتی چل گئی۔اردو نے بہت کم عرصے میں ہندوستان کے طول و عرض میں پھیل کرباشندگان ہند کو اپنی اہمیت و افادیت سے روشناس کیا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے سب اس کے حامی اور طرف دار بن گئے نیز اس کے فروغ و ارتقا کے لیے کوششیں کرنے لگے۔
اس موقع پر شعبے کے طالب علم فروغ احمد نے علامہ اقبال کے متعدد فکر انگیز اشعار کی روشنی میں تقریر کی جس میں انھوں نے علامہ کے فلسفۂ خودی اور اسے اپنانے و اس پر عمل پیرا ہونے پر زوردیا۔علامہ اقبال کی اسلام فہمی اور دینی حمیت کے تعلق سے بتاتے ہوئے انھوں نے کہا کہ علامہ اقبال کی تعلیم و تربیت میں انجمن حمایت اسلام لاہور کا بڑا ہاتھ رہا ہے جو آخر تک ان کے ذہن فکر رسا پر حاوی رہا اور تاعمر وہ اسلام کے ترجمان رہے اور اسی کے نغمے گاتے رہے۔اس موقع پر شعبے کے ایک اور طالب علم حسین پرویز نے علامہ کی معروف نظم ’بچے کی دعا‘ترنم میں سنائی۔یہ محفل شعبے کے طالب ابواللیث قاسمی کے شکریے پر اختتام پذیر ہوئی۔
اس تقریب میں شعبے کے طلبا کی ایک کثیر تعداد نے شرکت کی جن میں جاوید اختر خان،فرحان اختر،سرفراز،انعم خورشید،حماد ،محمد عبد اللہ،بے نظیر،محمد انیس،توفیق خان،محمد صدام حسین،فریدہ بانو، علویہ،شہزادہ سلیم،عمر الیاس،عامر چودھری،طارق ملک،محمد آصف،بلال،عادل،محمد نعیم،ذوالفقار علی، محمد مہتاب،دلشاد،شبیر،ارشد رضانمایاں طور پر موجود تھے۔
http://urdunetjpn.com/ur/2017/11/11/kirori-mal-college-iqbal-day/
No comments:
Post a Comment