Thursday, November 14, 2013

لمحۂ فکریہ:


آج یوم عاشوراہے،یعنی محرم الحرام کی دسویں تاریخ،یوم عاشوراکی فضیلت اس لیے نہیں ہے کہ اس دن جگرگوشۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت حسین رضی اللہ عنہ شہیدہوئے،(میں نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ ’’امام‘‘ اور ’’علیہ السلام‘‘ کے الفاظ استعمال نہیں کےے ہیں کیوںکہ یہ دونوں الفاظ اہل تشیع کے عقیدہ کی عکاس ہیں)عاشوراکی فضیلت قبل ازاسلام سے ہی ہے،عاشوراکے سلسلہ میں بہت ساری غیر مصدقہ روایت بھی ہے جس کے مطابق حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ اسی دن قبول ہوئی،حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی جودی پہاڑ سے اسی دن لگی،اسی طرح نمرودنے جس دن حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈالا اورآگ بحکم خداوندی گل گلزارہوگئی وہ بھی عاشوراکاہی دن تھا
،اسی طرح ایک مصدقہ روایت کے مطابق جس دن حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم کو فرعون سے نجات دلائی اور فرعون غرق دریاہواوہ دن بھی عاشوراکاہی تھا،لہذاعاشورہ کی فضیلت اس لیے نہیں ہے کہ اس دن حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کاغمناک واقعہ پیش آیابلکہ اکابراہل سنت نے تو یہ کہا ہے کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی فضیلت تھی کہ ان کی شہادت اس فضیلت والے دن میں ہوئی۔ اوراتناہی نہیں بلکہ رمضان کے روزوں کی فرضیت سے قبل عاشوراکاروزہ فرض تھاپھررمضان کے روزے کی فرضیت کی وجہ سے یہ روزہ استحباب کے درجہ میں آگیا،لہٰذاان باتوں سے یہ سمجھ آتی ہے کہ عاشورا یعنی دس محرم کی فضیلت اس لیے نہیں ہے کہ اس دن حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا المناک سانحہ پیش آیابلکہ اس کی فضیلت قبل ازاسلام سے ہی ہے۔
اسی طرح ہم اہل سنت کے لیے یہ بات بھی قابل افسو س اورلمحۂ فکریہ ہے کہ ہم ایسے خرافات اوربدعات کے عمل میں ملوث ہیں جن سے ہمیں روکاگیاہے یا جن کے کرنے پر سخت وعیدیں آئی ہیں ۔ عاشوراکے دن کرنے کاکام صرف اورصرف روزہ رکھناہے جوکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اوردیگرانبیاکی سنت رہی ہے لیکن ہم بھی اہل تشیع حضرات کی طرح ذکرشہادت حسین کی مجلسوں اور ماتم وتعزیہ داری جیسے شرکیہ حرام کاموں میں ملوث ہوجاتے ہیں۔اگرہمیں شہدا کویادکرناہے توہمارے پاس شہدااسلام کی اتنی لمبی تعدادہے کہ ان میں سے ہرایک کویادکرتے کرتے ہماری عمر گذرجائے پھربھی شہدائ کی فہرست باقی رہ جائے گی اورہماری زندگی ختم ہوجائے گی،توپھرصرف ذکر حسین اورماتم حسین ہی کیوں؟ کیا وہ تمام شہدائے اسلام جنہوں نے اسلام کی سربلندی کے لیے کفارومشرکین سے قتال کرتے کرتے اپنی جانیں نثارکردیں،کیابدرکے شہداکی شہادت کاکوئی مول نہیں ہے؟ کیااحدکے شہیدوں کی جانیں بے کار تھیں؟ کیاسیدالشہداحضرت سیدناحمزہ رضی اللہ عنہ کی شہادت بے کارتھی؟ اسی طرح امیرالمومنین حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ کی شہادت میں ہمارے لیے کوئی سبق نہیں ہے؟کیاحضرت عثمان وحضرت علی رضی اللہ عنہماکی شہادت کا اسلام میں کوئی مقام ومرتبہ نہیں ہے؟ توپھر صرف حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے واقعہ کوہی کیوں زندہ رکھاجاتاہے؟ آخرکیوں؟اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت اسلام کے لیے بڑاہی المناک سانحہ ہے،لیکن بجائے اس کے کہ ہم اس سانحہ سے سبق حاصل کریں ہم اس کاماتم اور تعزیہ بناکر ان کی شہادت کامذاق بنارہے ہیں۔ذراغورکریں! آج بھی اہل سنت کی ایک بڑی تعداداہل تشیع کے اعمال سے متاثرہوکر ان خرافات وبدعات میں ملوث ہیں،علما اورمسلم قائدین کادینی واخلاقی فریضہ ہے کہ ان کی اصلاح کی فکرکریں،اورانہیں سمجھائیں کہ یہ دین نہیں ہے بلکہ دین کوبربادکرنے کی ایک منظم سازش ہے جس کے ہم شکارہورہے ہیں۔اللہ ہم سبھوں کو صحیح راستہ پر چلنے کی توفیق عطافرمائے۔آمین


No comments:

Post a Comment