Tuesday, October 24, 2017

محمود کریمی ایک لیجنڈ ہیں: ڈاکٹر محمد یحییٰ صبا

قصیدہ بردہ کے انگریزی مترجم سمیت متعدد شعری و ادبی مجموعے کے مترجم محمود کریمی ایک لیجنڈ ہیں۔ایسے افراد بہت کم ہیں اور جو ہیں وہ ہمارے لیے غنیمت ہیں۔ان کے کاموں کو پرکھنا،انھیں آگے بڑھانا اور ان کی پذیرائی کرنا ہمارا ادبی فریضہ ہے۔مذکورہ خیالات کا اظہار بہار سے تشریف لائے ڈاکٹر محمود کریمی کے دولت کدے پر ان سے ملاقات کے بعد شعبہ اردو کروڑی مل کالج،دہلی یونیورسٹی کے سینئر استاذ ڈاکٹر محمد یحییٰ صبا نے ایک پریس نوٹ میں کیا۔انھوں نے مزید کہا کہ بہار ایسے افراد کا ہمیشہ سے خزینہ رہا ہے جنھوں نے اردو ادب سمیت ہر زبان کے ادب کی بے لوث خدمت کی ہے۔نام و نمود کرنے والے افراد زیادہ دنوں منظر نامے پر نہیں رہتے،وہ جلد ہی غائب ہوجاتے ہیں،اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ ان کے کام میں خلوص نہیں ہوتا،اور جو مخلص ہوتے ہیں،چاہے انھیں شہرت اور ناموری نہ ملے مگر انھیں ہمیشہ یاد رکھے جانا والا نام ا ور عنوان ملتا ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ ڈاکٹر محمود کریمی ایسے ادب نواز اور ادب شناس ہیں جنھوں نے پروفیسر مناظر عاشق ہرگانوی کے متعدد شعری مجموعے،نعتیہ مجموعوں اور کئی مضامین کا انگلش زبان میں ترجمہ کیا ہے،اب وہ قصیدہ بردہ کا انگریزی ترجمہ کرچکے ہیں۔یہ قصیدہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے مقبول نعت اور مشہور زمانہ کلام ہے۔جس کا متعددزبانوں میں ترجمہ ہوا ہے۔انھوں نے مزید بتایا کہ انگلش چوں کہ آج کے زمانے میں رابطے کی سب سے بڑی اور مشہور زبان ہے،لہٰذا ایسی زبان میں ان کا یہ کارنامہ لائق ستایش ہے جس کی پذیرائی کرنا ادبی اور دینی فریضہ ہے۔انھوں نے قصیدہ بردہ کے ترجمے کے ابتدائی نمونے دیکھ کر ان پر اپنی پسندیدگی کا اظہار کیا اور امید جتائی کہ ان کا اوالعزم کام پذیرائی اور وقار کی نظر سے دیکھا جائے گا۔اس موقع پر ڈاکٹر موصوف کے علاوہ جواہر لال نہرویونیورسٹی کے ریسرچ اسکالر عمران عاکف خان سمیت کئی لوگ موجود تھے۔
http://urdu.chauthiduniya.com/2017/10/mahmood-karimi-a-legend-dr-yahya-saba

Monday, October 16, 2017

Yeh duniyaa yeh mehfil mere kaam ki nahii.N This world and these people are not for me

This world and these people are not for me, Whom should I tell the state of my restless heart?, I am the extinguished flame of my own mausoleum, If only I could forget, but I am unable to forget with what uproar marched the funeral of Spring, I know neither my own whereabouts nor have I heard news from friends, Even enemies do not receive such a punishment for love, Others meet the God for whom they have searched, Let me have just one glance from my beloved, Even as I enter the wilderness, I found no shelter, I found no pretense to erase the memory of my sadness, What can I understand about the world in which my heart remains longing for love?, Upon losing a winning gamble, I must search for my lost friend, Far from my gaze, someone is shedding tears, How can I resist going when someone calls to me?, Either let me mend this broken heart or let me break all ties, Oh mountains, show me the path! Oh thorns, let go of my embrace!, This world and these people are not for me.

Yeh Duniya Yeh Mehfil Lyrics and Translation:
This world and these people are not for me
Whom should I tell the state of my restless heart?
I am the extinguished flame of my own mausoleum
If only I could forget, but I am unable to forget
with what uproar marched the funeral of Spring
I know neither my own whereabouts nor have I heard news from friends
Even enemies do not receive such a punishment for love
Others meet the God for whom they have searched
Let me have just one glance from my beloved
Even as I enter the wilderness, I found no shelter
I found no pretense to erase the memory of my sadness
What can I understand about the world in which my heart remains longing for love?
Upon losing a winning gamble, I must search for my lost friend
Far from my gaze, someone is shedding tears
How can I resist going when someone calls to me?
Either let me mend this broken heart or let me break all ties
Oh mountains, show me the path! Oh thorns, let go of my embrace!
This world and these people are not for me

Yeh Duniya Yeh Mehfil Lyrics and Translation:
Yeh duniyaa yeh mehfil mere kaam ki nahii.N
This world and these people are not for me
Kisko sunaaoo.N haal dil-e-beqaraar kaa?
Whom should I tell the state of my restless heart?
Bujhtaa huaa chiraagh hoo.N apne mazaar kaa
I am the extinguished flame of my own mausoleum
Aye kaash bhool jaaoo.N, magar bhooltaa nahii.N
If only I could forget, but I am unable to forget
kis dhoom se uthaa thaa janaazaa bahaar kaa
with what uproar marched the funeral of Spring
Apnaa pataa mile, naa khabar yaar kii mile
I know neither my own whereabouts nor have I heard news from friends
Dushman ko bhii naa aisii sazaa pyaar kii mile
Even enemies do not receive such a punishment for love
Unko khudaa mile hai.N khudaa kii jinhe talaash
Others meet the God for whom they have searched
Mujhko bas ek jhalak mere dildaar kii mile
Let me have just one glance from my beloved
Saharaa mei.N aake bhii, mujhki Thikaanaa na milaa
Even as I enter the wilderness, I found no shelter
Gham ko bhoolaane kaa koii bahaanaa naa milaa
I found no pretense to erase the memory of my sadness
Dil tarase jis mei.N pyaar ko, kyaa samajhoo.N us sansaar ko?
What can I understand about the world in which my heart remains longing for love?
Ek jiitii baazii haar ke, mai.N DhuunDhuu.N bichhaDe yaar ko
Upon losing a winning gamble, I must search for my lost friend
Duur nigaaho.N se aa.Nsuu bahaataa hai.N koii
Far from my gaze, someone is shedding tears
Kaise na jaaoo.N mai.N, mujhko bulaataa hai.N koii
How can I resist going when someone calls to me?
Yaa TuuTe dil ko joD do, yaa saare bandhan toD do
Either let me mend this broken heart or let me break all ties
Aye parbat, rastaa de mujhe! Aye kaanto.N, daaman chhoD do!
Oh mountains, show me the path! Oh thorns, let go of my embrace!
Yeh duniyaa yeh mehfil mere kaam ki nahii.N
This world and these people are not for me

Wednesday, October 11, 2017

ممتازدانشوراورکروڑی مل کالج ، دہلی یونیورسٹی میں شعبہ اردوکے پروفیسرڈاکٹریحییٰ صبانے کہاہے کہ ہندوستانی تہذیب و ثقافت کے فروغ میں اردو زبان کا اہم کردار ہے



ممتازدانشوراورکروڑی مل کالج ، دہلی یونیورسٹی میں شعبہ اردوکے پروفیسرڈاکٹریحییٰ صبانے کہاہے کہ ہندوستانی تہذیب و ثقافت کے فروغ میں اردو زبان کا اہم کردار ہے۔انہوں نے مذکورہ خیالات کا اظہار 8اکتوبرکو ’’ گڈوِل فار پیپل‘‘اور ’’قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان‘‘کے اشتراک سے منعقدہ ایک ورک شاپ عنوان’’ہندوستانی تہذیب کو مضبوط کر نے میں اردو کا کردار‘‘کے موقع پر صدارتی خطبہ پیش کرتے ہوئے کیا۔
انہوں نے مزیدکہاکہ ہندوستان،ہندوستانی تہذیب اور اردویہ تینوں چیزیں کہنے کو الگ الگ ضرور ہیں مگر ان میں ایک خاص ملاپ اور مناسبت ہے جس نے ان کو اس طرح جوڑرکھا ہے کہ ایک دوسرے کے بغیر یہ ادھوری ہیں ۔ان میں بھی اردو کا نمبر سب سے پہلے ہے جس نے ہندوستان اور ہندوستانی تہذیب کے درمیان ایک خوشگوار رشتہ قائم کر رکھا ہے۔اردو جہاں گنگا جمنی تہذیب کا اصل سرچشمہ ہے وہیں بدقسمتی سے وہ اس ملک میں دوسری زبان کا درجہ رکھتی ہے۔قطع نظر اس کے کہ اردو کی اس ثانوی حیثیت کا ذمے دار کون ہے؟اہم بات یہ ہے کہ اردو زبان کی اہمیت اور مقام سے کسی طرح انکار ممکن نہیں ہے۔انھوں نے کہا کہ اردو نہ صرف ایک زبان ہے بلکہ دلوں کو جوڑنے والی اور ہماری ہندوستانی شناخت و پہچان کا بھی اہم ذریعہ ہے۔انھوں نے کہا کہ اردو جہاں ایک زبان،ایک بھاشا اور بولی ہے وہیں اس کا تعاون یہ ہے کہ اس نے ٹوٹے دلوں،خطوں اور علاقوں کو آپس میں جوڑا ہے ۔انھوں نے مزید کہا کہ اردو ہندوستانی زبانوں میں سب سے میٹھی اور دلوں کو موہ لینی والی زبان ہے۔
اس پروگرام کے دوسرے خطیب ستیہ وتی کالج ،دہلی یونیورسٹی کے استاذ ڈاکٹر اشتیاق عارف نے اپنے خطاب میں کہا کہ اردومحبتوں اور خلوص کی زبان ہے۔جہاں یہ سیکھنے کی زبان ہے وہیں زندگیوں میں اپلی منٹ کی زبان بھی ہے۔اپنے اندر اتارنے اور اپنی زندگیوں میں ڈھالنے کی زبان ہے۔انھوں نے مزید کہا کہ یہ زبان تہذیب اور ادب سکھاتی ہے۔رہنے سہنے اور پہننے اوڑھنے تک کے آداب یہ سکھاتی ہے۔
مذکورہ پروگرام سے خطاب کر تے ہوئے جواہر لال نہرویونیورسٹی کے ریسرچ اسکالر عمران عاکف خان نے کہا کہ اردو ہندوستان کی بنیادوں میں شامل زبان ہے۔جس نے ہندوستانی عمارت کو تھام رکھا ہے۔اس نے انگریزوں سے آزادی اور آزادی کے بعد ملک عزیز پر پڑنے والی ہر افتاد کا مقابلہ کرتے ہوئے ملک کو بچایاہے۔انھوں نے مزید کہا کہ اردو ہندوستان کا لباس زیبا اور خوش گوار پیرہن ہے ۔ اگر میں یہ کہوں تو مبالغہ نہ ہوگا کہ اردو کی حیثیت ہندوستان میں ایسی ہی ہے جس طرح ہمارے بدن میں رگوں اور رگوں میں دوڑتے ہوئے خون کی حیثیت ہے۔اردو کا فروغ اور اس کی بقا ہماری بقا اور فروغ کی ضمانت ہے۔ہماری تہذیب کے فروغ کی ضمانت ہے۔انھوں نے مزید کہا کہ اردو کے بغیر ہم اس سماج و سوسائٹی کا تصور ہی نہیں کر سکتے جسے کلاسک اور معیاری کہا جاسکے۔چنانچہ ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم ہر سطح اور مقام پر خود کو اردوسے اور اردو کو خود سے جوڑیں۔
اس پروگرام سے خطاب کر تے ہوئے قاری محمدہارون صدر اقلیتی مورچہ بھارتیہ جنتا پارٹی،دہلی پردیش نے بھی خطاب کیا۔انھوں نے کہا کہ اردو کو مٹانے اور برباد کر نے کی جتنی بھی کوشش ماضی وحال میں کی گئی وہ کبھی بھی کامیاب نہ ہوسکی۔اس کی وجہ یہ ہے کہ اردو زبان ہماری سوچ اور فکر سے جڑی ہے ۔پھر جس طرح ہماری سوچ اور فکر کے خلاف ہر کوشش ناکام ہوتی ہے ،اسی طرح اردو کے خلاف اٹھنے والی ہر کوشش بھی۔اردو سینوں اور دلوں میں گھر کرنے والی زبان ہے۔آنکھوں کو نور اور دل کو سرور بخشنے والی زبان ہے ۔چنانچہ اسے کون اور کیوں کر مٹا سکتا ہے۔
ابواللیث قاسمی کی نظامت میں منعقدہ اس ورک شاپ سے مذکورہ مقررین کے علاوہ مقامی اورذمے دارلوگوں نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا جن میں ڈاکٹر عبد الواحد صدیقی چیئر مینAHYS ،مقامی ایم ایل اے ریتو راج جھا(آپ)مقامی کونسلرجیندر ڈبال،فرمود اختر،خورشید عالم ،محمد داؤد عالم وغیرہ خصوصی طور پر قابل ذکر ہیں۔اس موقع پر مقامی اسکول کے طلبا و طالبات،اساتذہ کے علاوہ بڑی تعداد میں عوام موجود تھے۔
https://www.facebook.com/vachaspati.saba/posts/796876370484929

Dr. Mohd. Yahya Assistant Professor Dept. of Urdu Kirori Mal College, University of Delhi, Delhi-110007 E-mail: urisath@yahoo.com Mob: No: 09968244001 Dr. Mohd. Yahya Assistant Professor Dept. of Urdu Kirori Mal College, University of Delhi, Delhi-110007 E-mail: urisath@yahoo.com Mob: No: 09968244001






ممتازدانشوراورکروڑی مل کالج ، دہلی یونیورسٹی میں شعبہ اردوکے پروفیسرڈاکٹریحییٰ صبانے کہاہے کہ ہندوستانی تہذیب و ثقافت کے فروغ میں اردو زبان کا اہم کردار ہے


ممتازدانشوراورکروڑی مل کالج ، دہلی یونیورسٹی میں شعبہ اردوکے پروفیسرڈاکٹریحییٰ صبانے کہاہے کہ ہندوستانی تہذیب و ثقافت کے فروغ میں اردو زبان کا اہم کردار ہے۔انہوں نے مذکورہ خیالات کا اظہار 8اکتوبرکو ’’ گڈوِل فار پیپل‘‘اور ’’قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان‘‘کے اشتراک سے منعقدہ ایک ورک شاپ عنوان’’ہندوستانی تہذیب کو مضبوط کر نے میں اردو کا کردار‘‘کے موقع پر صدارتی خطبہ پیش کرتے ہوئے کیا۔
انہوں نے مزیدکہاکہ ہندوستان،ہندوستانی تہذیب اور اردویہ تینوں چیزیں کہنے کو الگ الگ ضرور ہیں مگر ان میں ایک خاص ملاپ اور مناسبت ہے جس نے ان کو اس طرح جوڑرکھا ہے کہ ایک دوسرے کے بغیر یہ ادھوری ہیں ۔ان میں بھی اردو کا نمبر سب سے پہلے ہے جس نے ہندوستان اور ہندوستانی تہذیب کے درمیان ایک خوشگوار رشتہ قائم کر رکھا ہے۔اردو جہاں گنگا جمنی تہذیب کا اصل سرچشمہ ہے وہیں بدقسمتی سے وہ اس ملک میں دوسری زبان کا درجہ رکھتی ہے۔قطع نظر اس کے کہ اردو کی اس ثانوی حیثیت کا ذمے دار کون ہے؟اہم بات یہ ہے کہ اردو زبان کی اہمیت اور مقام سے کسی طرح انکار ممکن نہیں ہے۔انھوں نے کہا کہ اردو نہ صرف ایک زبان ہے بلکہ دلوں کو جوڑنے والی اور ہماری ہندوستانی شناخت و پہچان کا بھی اہم ذریعہ ہے۔انھوں نے کہا کہ اردو جہاں ایک زبان،ایک بھاشا اور بولی ہے وہیں اس کا تعاون یہ ہے کہ اس نے ٹوٹے دلوں،خطوں اور علاقوں کو آپس میں جوڑا ہے ۔انھوں نے مزید کہا کہ اردو ہندوستانی زبانوں میں سب سے میٹھی اور دلوں کو موہ لینی والی زبان ہے۔
اس پروگرام کے دوسرے خطیب ستیہ وتی کالج ،دہلی یونیورسٹی کے استاذ ڈاکٹر اشتیاق عارف نے اپنے خطاب میں کہا کہ اردومحبتوں اور خلوص کی زبان ہے۔جہاں یہ سیکھنے کی زبان ہے وہیں زندگیوں میں اپلی منٹ کی زبان بھی ہے۔اپنے اندر اتارنے اور اپنی زندگیوں میں ڈھالنے کی زبان ہے۔انھوں نے مزید کہا کہ یہ زبان تہذیب اور ادب سکھاتی ہے۔رہنے سہنے اور پہننے اوڑھنے تک کے آداب یہ سکھاتی ہے۔
مذکورہ پروگرام سے خطاب کر تے ہوئے جواہر لال نہرویونیورسٹی کے ریسرچ اسکالر عمران عاکف خان نے کہا کہ اردو ہندوستان کی بنیادوں میں شامل زبان ہے۔جس نے ہندوستانی عمارت کو تھام رکھا ہے۔اس نے انگریزوں سے آزادی اور آزادی کے بعد ملک عزیز پر پڑنے والی ہر افتاد کا مقابلہ کرتے ہوئے ملک کو بچایاہے۔انھوں نے مزید کہا کہ اردو ہندوستان کا لباس زیبا اور خوش گوار پیرہن ہے ۔ اگر میں یہ کہوں تو مبالغہ نہ ہوگا کہ اردو کی حیثیت ہندوستان میں ایسی ہی ہے جس طرح ہمارے بدن میں رگوں اور رگوں میں دوڑتے ہوئے خون کی حیثیت ہے۔اردو کا فروغ اور اس کی بقا ہماری بقا اور فروغ کی ضمانت ہے۔ہماری تہذیب کے فروغ کی ضمانت ہے۔انھوں نے مزید کہا کہ اردو کے بغیر ہم اس سماج و سوسائٹی کا تصور ہی نہیں کر سکتے جسے کلاسک اور معیاری کہا جاسکے۔چنانچہ ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم ہر سطح اور مقام پر خود کو اردوسے اور اردو کو خود سے جوڑیں۔
اس پروگرام سے خطاب کر تے ہوئے قاری محمدہارون صدر اقلیتی مورچہ بھارتیہ جنتا پارٹی،دہلی پردیش نے بھی خطاب کیا۔انھوں نے کہا کہ اردو کو مٹانے اور برباد کر نے کی جتنی بھی کوشش ماضی وحال میں کی گئی وہ کبھی بھی کامیاب نہ ہوسکی۔اس کی وجہ یہ ہے کہ اردو زبان ہماری سوچ اور فکر سے جڑی ہے ۔پھر جس طرح ہماری سوچ اور فکر کے خلاف ہر کوشش ناکام ہوتی ہے ،اسی طرح اردو کے خلاف اٹھنے والی ہر کوشش بھی۔اردو سینوں اور دلوں میں گھر کرنے والی زبان ہے۔آنکھوں کو نور اور دل کو سرور بخشنے والی زبان ہے ۔چنانچہ اسے کون اور کیوں کر مٹا سکتا ہے۔
ابواللیث قاسمی کی نظامت میں منعقدہ اس ورک شاپ سے مذکورہ مقررین کے علاوہ مقامی اورذمے دارلوگوں نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا جن میں ڈاکٹر عبد الواحد صدیقی چیئر مینAHYS ،مقامی ایم ایل اے ریتو راج جھا(آپ)مقامی کونسلرجیندر ڈبال،فرمود اختر،خورشید عالم ،محمد داؤد عالم وغیرہ خصوصی طور پر قابل ذکر ہیں۔اس موقع پر مقامی اسکول کے طلبا و طالبات،اساتذہ کے علاوہ بڑی تعداد میں عوام موجود تھے۔