اردو کو انٹرنیشنل مارکیٹ میں
لے جانے والوں میں ایک اہم نام انتظار حسسیں کا تھا --ذوقی
انتظار حسسیں بھی چلے گئے .ابھی عابد سہیل کے صدمے سے ہماری زبان باہر بھی نہ نکلی تھی کہ انتظار حسین کے جانے کی خبر آ گیی --احمد ندیم قاسمی ،عینی بی .،انتظار حسسیں ،اردو فکشن کا قافلہ آہستہ آھستہ سکڑتا جا رہا ہے .عبدللہ حسسیں بھی چلے گئے .مستنصر حسسیں تارّر بیمار رہتے ہیں .گنتی کے چند ایسے لوگ ، جو انٹرنیشنل ادبی مارکیٹ میں جانے جاتے تھے .اب ایسے لوگوں میں فاروقی صاحب اور نارنگ صاحب کو چھوڑ کر کویی دوسرا اردو ادیب مجھے دور دور تک نظر نہیں آتا .انتظار صاحب کا نام بوکر انعام کے لئے نامزد ہونا اردو کی ادبی تاریخ کے لئے کویئی چھوٹا موٹا واقعہ نہیں ، تاریخ خود کو بار بار نہیں دہرایا کرتی ..اور آگے ایسا ہونے کی امید بھی نظر نہیں آتی .انتظار صاحب کالم نگار ،مضمون نگار ،افسانہ نگار ناول نگار سب کچھ تھے .بحیثیت انسان وہ عمدہ شخصیت کے مالک تھے .انکے افسانوں کو لے کر میرا اختلاف تھا .مگر میں نے کبھی اسکا مظاہرہ نہیں کیا .پنچ تنتر اور الف لیلوی کہانیوں ، داستانوں ،طلسم ہوشربا کی کہانیوں کو حقیقت سے وابستہ کرنا ، اپنے عھد سے جوڑنے میں انھیں مہارت حاصل تھی .مجھے یاد ہے -١٩٨٠ کی دہایی سے قبل انکا جادو کچھ ایسے سر چڑھ کر بول رہا تھا کہ اس وقت کے بیشتر افسانہ نگار انکے انداز اور اسلوب کی نقل کرنے لگے تھے .یہ نقل آج بھی عام ہے .ایسی کامیابی سب کے حصّے میں نہیں آتی .-- تخیل اور داستانوں کو اپنے عہد میں جیتے ہوئے انکی شخصیت بھی داستانی ہو گی تھی . صدمہ اس بات کا ہے کہ انتظار حسسیں کے ساتھ وہ داستان گو بھی رخصت ھوا ،جو اختلاف کے باوجود ساری زندگی ایک ہی روش اور ایک ہی دگر پر قایم رہا ...زندگی کے آخری سفر سے چند ماہ قبل تک وہ داستانوں کی اہمیت ہمیں سمجھاتے رہے .انتظار صاحب اپنے پیچھے ایک ایسا نام چھوڑ گئے ہیں ،جو ہماری فکشن کی عظیم تاریخ سے وابستہ ہے .جب تک ہماری زبان زندہ ہے ،اور د عا ا ہے کہ زندہ رہے ..انتظار صاحب بھی زندہ رہینگے .. اردو کی نیی یا آنے والی نسل انھیں مرنے نہیں دیگی .
انتظار حسسیں بھی چلے گئے .ابھی عابد سہیل کے صدمے سے ہماری زبان باہر بھی نہ نکلی تھی کہ انتظار حسین کے جانے کی خبر آ گیی --احمد ندیم قاسمی ،عینی بی .،انتظار حسسیں ،اردو فکشن کا قافلہ آہستہ آھستہ سکڑتا جا رہا ہے .عبدللہ حسسیں بھی چلے گئے .مستنصر حسسیں تارّر بیمار رہتے ہیں .گنتی کے چند ایسے لوگ ، جو انٹرنیشنل ادبی مارکیٹ میں جانے جاتے تھے .اب ایسے لوگوں میں فاروقی صاحب اور نارنگ صاحب کو چھوڑ کر کویی دوسرا اردو ادیب مجھے دور دور تک نظر نہیں آتا .انتظار صاحب کا نام بوکر انعام کے لئے نامزد ہونا اردو کی ادبی تاریخ کے لئے کویئی چھوٹا موٹا واقعہ نہیں ، تاریخ خود کو بار بار نہیں دہرایا کرتی ..اور آگے ایسا ہونے کی امید بھی نظر نہیں آتی .انتظار صاحب کالم نگار ،مضمون نگار ،افسانہ نگار ناول نگار سب کچھ تھے .بحیثیت انسان وہ عمدہ شخصیت کے مالک تھے .انکے افسانوں کو لے کر میرا اختلاف تھا .مگر میں نے کبھی اسکا مظاہرہ نہیں کیا .پنچ تنتر اور الف لیلوی کہانیوں ، داستانوں ،طلسم ہوشربا کی کہانیوں کو حقیقت سے وابستہ کرنا ، اپنے عھد سے جوڑنے میں انھیں مہارت حاصل تھی .مجھے یاد ہے -١٩٨٠ کی دہایی سے قبل انکا جادو کچھ ایسے سر چڑھ کر بول رہا تھا کہ اس وقت کے بیشتر افسانہ نگار انکے انداز اور اسلوب کی نقل کرنے لگے تھے .یہ نقل آج بھی عام ہے .ایسی کامیابی سب کے حصّے میں نہیں آتی .-- تخیل اور داستانوں کو اپنے عہد میں جیتے ہوئے انکی شخصیت بھی داستانی ہو گی تھی . صدمہ اس بات کا ہے کہ انتظار حسسیں کے ساتھ وہ داستان گو بھی رخصت ھوا ،جو اختلاف کے باوجود ساری زندگی ایک ہی روش اور ایک ہی دگر پر قایم رہا ...زندگی کے آخری سفر سے چند ماہ قبل تک وہ داستانوں کی اہمیت ہمیں سمجھاتے رہے .انتظار صاحب اپنے پیچھے ایک ایسا نام چھوڑ گئے ہیں ،جو ہماری فکشن کی عظیم تاریخ سے وابستہ ہے .جب تک ہماری زبان زندہ ہے ،اور د عا ا ہے کہ زندہ رہے ..انتظار صاحب بھی زندہ رہینگے .. اردو کی نیی یا آنے والی نسل انھیں مرنے نہیں دیگی .
No comments:
Post a Comment