Sunday, November 12, 2017

Under the Banner of Peace India Foundation I Organised a Academic and Literary Session on Maulana Abul Kalam Aazad who is First Education Minister of India


مولانا ابو الکلام آزاد جدید تعلیم و ٹیکنالوجی کے داعی اور مفکر تھے،ان کا یوم پیدائش یوم تعلیم کے نام سے ہرسال منایا جاتا ہے ؟مولانا آزاد ایک سچے ہندوستانی اور ہندوستان کی اس مٹی کے تربیت یافتہ تھے جس نے ماضی میں بھی دنیا کو بڑے بڑے عالم فاضل،رشی ،منی اور مفکر دیے ہیں ۔ وہ اسی ہندوستان کے سپوت ہیں جس نے پوری دنیا کو تمدن اور تہذیب سکھائی ہے۔چنانچہ یہی وجہ ہے کہ ہم آج مولانا آزاد کا یوم پیدائش منا رہے ہیں نیز اسے انسان کی سب سے بڑی ضرورت یعنی تعلیم سے وابستہ کر رہے ہیں ۔مذکورہ خیالات کا اظہار آج پیس انڈیا فاؤنڈیشن کے مرکزی آفس پنجابی بستی گھنٹہ گھر،دہلی میں منعقدہ پروگرام کی صدارت کر تے ہوئے ڈاکٹر محمد یحییٰ صبا کیا۔ انھوں نے کہا کہ مولانا آزاد کی پیدائش کا جائے مقام مکہ ہے جہاں اقرا یعنی پڑھنے کی پہلی وحی نازل ہوئی۔جہاں سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کی جانب سے پڑھائی کا حکم ملا۔چنانچہ اسی سرزمین کا فیضان ہے کہ اس نے ہمیں مولانا ابو الکلام جیسا عالم،مفسر،مضمون نگار،مفکر اور دانشور دیا۔یہ ہمارے اور ہمارے ملک پر اللہ تعالیٰ کا خصوصی احسان اور کرم ہے۔انھوں نے کہا کہ آج کے دن کا پیغام یہ ہے کہ ہم جدید تعلیم، سائنس و ٹیکنالوجی جس کامنبع و مرکز تمام مذہبی کتب بالخصوص قرآن و حدیث کی تعلیمات ہیں اور اعلا فکر جیسی نعمتیں حاصل کر نے کی بھر پورکوشش کریں کیوں کہ حدیثوں میں آتا ہے کہ حکمت و دانائی مومن کا گم کردہ سرمایہ ہے۔سو اسے چاہیے کہ وہ اسے جہاں پائے، ہر حال میں حاصل کر ے۔مولانا ابو الکلام آزاد اور ان کی تعلیمات و کوششیں ہمیں یہی سکھاتی ہیں اور اسی کی تلقین کرتی ہیں۔انھوں نے کہا کہ ہندوستان میں ایک طبقے کے متعلق مفروضہ مشہور ہے کہ وہ سخت مسلم مخالف ہے مگر وہ طبقہ بھی مولانا آزاد کو اپنا عظیم ترین سرمایہ تصور کرتا ہے۔
شعبۂ اردو ستیہ وتی کالج ،دہلی یونیورسٹی کے استاذ ڈاکٹر عارف اشتیاق نے اس موقع پر کہا کہ مولانا آزاد اور تعلیم دونوں ایک ایسی حقیقت ہیں جن کا ایک دوسرے کے بغیر تصور ممکن نہیں ہے۔انھوں نے کہا کہ مولانا نے ملک کے آزاد ہونے سے قبل اور بعد جوحصول تعلیم کی کوششیں کیں اور باشندگان وطن کے لیے جس طرح کی تعلیم کے چلن کے خواب دیکھے ،ان کی مثال کہیں نہیں ملتی۔مولانا نہ صرف ملک عزیز کے پرستار تھے اور یہاں بسنے والی تمام اقوام کی بھلائی کے لیے فکر مند تھے بلکہ ملت اسلامیہ کے لیے بھی ان کے دل میں بہت درد اور احساس تھا۔چنانچہ انھوں نے تعلیم کی جانب متوجہ کرنے کے لیے یہاں کی اقلیتوں اور مسلمانوں کو اسکالرشپ اور تعلیمی وظائف کا سلسلہ شروع کیا،اس کا خاطر خواہ اثر سامنے آیا اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک بڑی جماعت نے اس طریقے سے استفادہ کیا۔
اس موقع فاؤنڈیشن کے ممبر عمران عاکف خان نے کہا کہ مولانا آزاد نے روایتی تعلیم اور جدید تعلیم اسی کے ساتھ ساتھ ٹیکنالوجی کے حصول پر بہت زور دیا ۔انھوں نے جہاں اپنی علمی ،ادبی اور مذہبی تحریروں سے اس تعلیم کے حصول کی تلقین کی،وہیں انھوں نے نئی تعلیم اور وقت کے تقاضوں کے مطابق چیزوں کو سوچنے ا ور سمجھنے کی طرف بھی توجہ دلائی۔انھوں نے اپنی وزارت تعلیمات کے دوران ملک بھر میں پھیلی کالجز،یونیورسٹیوں اور سرکاری محکموں کے زیر اہتمام جاری تعلیمی اداروں میں تعلیم اور انداز تعلیم کو از سر نو مرتب کیا اور پھر اس کے لیے متعدد رہ نما اصول بھی مرتب کیے۔چنانچہ آج ہم جس نہج کی تعلیم عصری درسگاہوں میں پڑھتے پڑھاتے ہیں ،وہ وہی انداز ہے اور یہ وہی اصول و ضابطے ہیں۔
اس موقع پر پروگرام میں مدعو محمد اکبر راعین نے کہا کہ مولانا آزاد کا تعلق چاہے کسی بھی سیاسی جماعت سے ہومگر سب سے پہلے وہ عظیم مجاہد آزادی اور ہندوستانی تھے۔چنانچہ ان کی خدمات اور تمام تر منصوبے ،سب کے سب ہندوستان اور ہندوستانی قوموں کے لیے تھے۔ان کے دل میں سب کے لیے تڑپ اور درد تھا اور سب کے لیے یکساں طور پر سوچتے تھے۔اس موقع پر حاضرین و سامعین کی بڑی تعداد موجود تھی۔


No comments:

Post a Comment